I Corinthians 15

بھائیو، مَیں آپ کی توجہ اُس خوش خبری کی طرف دلاتا ہوں جو مَیں نے آپ کو سنائی، وہی خوش خبری جسے آپ نے قبول کیا اور جس پر آپ قائم بھی ہیں۔
ای دوستان من، اكنون می‌خواهم مژده‌ای را كه قبلاً به شما اعلام كرده بودم و شما قبول نمودید و در آن پایدار هستید، بیاد شما بیاورم.
اِسی پیغام کے وسیلے سے آپ کو نجات ملتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ آپ وہ باتیں جوں کی توں تھامے رکھیں جس طرح مَیں نے آپ تک پہنچائی ہیں۔ بےشک یہ بات اِس پر منحصر ہے کہ آپ کا ایمان لانا بےمقصد نہیں تھا۔
اگر به آن متوسّل باشید به وسیلهٔ آن نجات می‌یابید، مگر اینكه ایمان شما واقعی نباشد.
کیونکہ مَیں نے اِس پر خاص زور دیا کہ وہی کچھ آپ کے سپرد کروں جو مجھے بھی ملا ہے۔ یہ کہ مسیح نے پاک نوشتوں کے مطابق ہمارے گناہوں کی خاطر اپنی جان دی،
آنچه را كه به من رسیده بود یعنی مهمترین حقایق انجیل را به شما سپردم و آن این است كه مطابق پیشگویی‌های تورات و نوشته‌های انبیا، مسیح برای گناهان ما مرد
پھر وہ دفن ہوا اور تیسرے دن پاک نوشتوں کے مطابق جی اُٹھا۔
و مدفون شد و نیز بر طبق کتاب‌مقدّس در روز سوم زنده گشت
وہ پطرس کو دکھائی دیا، پھر بارہ شاگردوں کو۔
و بعد خود را به پطرس و پس از آن به دوازده رسول ظاهر ساخت و
اِس کے بعد وہ ایک ہی وقت پانچ سَو سے زیادہ بھائیوں پر ظاہر ہوا۔ اُن میں سے بیشتر اب تک زندہ ہیں اگرچہ چند ایک انتقال کر چکے ہیں۔
یک‌بار هم به بیش از پانصد نفر از پیروان دیگر ظاهر شد، كه اغلب آنها تا امروز زنده‌اند ولی بعضی مرده‌اند.
پھر یعقوب نے اُسے دیکھا، پھر تمام رسولوں نے۔
بعد از آن یعقوب و سپس تمام رسولان او را دیدند.
اور سب کے بعد وہ مجھ پر بھی ظاہر ہوا، مجھ پر جو گویا قبل از وقت پیدا ہوا۔
آخر همه، خود را به من كه در برابر آنها طفلی نارس بودم، ظاهر ساخت؛
کیونکہ رسولوں میں میرا درجہ سب سے چھوٹا ہے، بلکہ مَیں تو رسول کہلانے کے بھی لائق نہیں، اِس لئے کہ مَیں نے اللہ کی جماعت کو ایذا پہنچائی۔
زیرا من از تمام رسولان او كمتر هستم و حتّی شایستگی آن را ندارم كه رسول خوانده شوم، چون بر كلیسای خدا جفا می‌رسانیدم.
لیکن مَیں جو کچھ ہوں اللہ کے فضل ہی سے ہوں۔ اور جو فضل اُس نے مجھ پر کیا وہ بےاثر نہ رہا، کیونکہ مَیں نے اُن سب سے زیادہ جاں فشانی سے کام کیا ہے۔ البتہ یہ کام مَیں نے خود نہیں بلکہ اللہ کے فضل نے کیا ہے جو میرے ساتھ تھا۔
امّا به وسیلهٔ فیض خدا آنچه امروز هستم، هستم و فیضی كه او نصیب من گردانید، بیهوده نبود؛ زیرا من از همهٔ ایشان بیشتر زحمت كشیدم. گرچه واقعاً من نبودم؛ بلكه فیض خدا بود كه با من كار می‌کرد.
خیر، یہ کام مَیں نے کیا یا اُنہوں نے، ہم سب اُسی پیغام کی منادی کرتے ہیں جس پر آپ ایمان لائے ہیں۔
به هرحال خواه من بیشتر زحمت كشیده باشم، خواه ایشان، تفاوتی ندارد. زیرا این است آنچه همهٔ ما اعلام می‌کنیم و شما نیز به این ایمان آورده‌اید.
اب مجھے یہ بتائیں، ہم تو منادی کرتے ہیں کہ مسیح مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔ تو پھر آپ میں سے کچھ لوگ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مُردے جی نہیں اُٹھتے؟
پس اگر مژده‌ای را كه ما اعلام می‌کنیم، این باشد كه مسیح پس از مرگ زنده شد، چگونه بعضی از شما می‌توانید ادّعا كنید كه قیامت مردگان وجود ندارد؟
اگر مُردے جی نہیں اُٹھتے تو مطلب یہ ہوا کہ مسیح بھی نہیں جی اُٹھا۔
اگر قیامت مردگان وجود نداشته باشد، پس مسیح هم زنده نشده است!
اور اگر مسیح جی نہیں اُٹھا تو پھر ہماری منادی عبث ہوتی اور آپ کا ایمان لانا بھی بےفائدہ ہوتا۔
و اگر مسیح زنده نشده باشد، هم بشارت ما پوچ است و هم ایمان شما!
نیز ہم اللہ کے بارے میں جھوٹے گواہ ثابت ہوتے۔ کیونکہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ نے مسیح کو زندہ کیا جبکہ اگر واقعی مُردے نہیں جی اُٹھتے تو وہ بھی زندہ نہیں ہوا۔
وقتی گفتیم كه خدا مسیح را زنده ساخته است، درصورتی‌که زنده شدن مردگان درست نباشد، دربارهٔ خدا شهادت دروغ داده‌ایم.
غرض اگر مُردے جی نہیں اُٹھتے تو پھر مسیح بھی نہیں جی اُٹھا۔
زیرا اگر مردگان زنده نمی‌شوند، مسیح هم مسلّماً زنده نشده است.
اور اگر مسیح نہیں جی اُٹھا تو آپ کا ایمان بےفائدہ ہے اور آپ اب تک اپنے گناہوں میں گرفتار ہیں۔
و اگر مسیح زنده نشده است، ایمان شما بیهوده است و شما هنوز در گناهان خود هستید.
ہاں، اِس کے مطابق جنہوں نے مسیح میں ہوتے ہوئے انتقال کیا ہے وہ سب ہلاک ہو گئے ہیں۔
از آن گذشته ایماندارانی هم كه مرده‌اند، باید هلاک شده باشند!
چنانچہ اگر مسیح پر ہماری اُمید صرف اِسی زندگی تک محدود ہے تو ہم انسانوں میں سب سے زیادہ قابلِ رحم ہیں۔
اگر امید ما به مسیح فقط منحصر به این زندگی باشد، از تمام مردم بدبخت‌تر هستیم!
لیکن مسیح واقعی مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔ وہ انتقال کئے ہوؤں کی فصل کا پہلا پھل ہے۔
امّا در حقیقت، مسیح پس از مرگ زنده شد و اولین كسی است كه از میان مردگان برخاسته است.
چونکہ انسان کے وسیلے سے موت آئی، اِس لئے انسان ہی کے وسیلے سے مُردوں کے جی اُٹھنے کی بھی راہ کھلی۔
زیرا چنانکه مرگ به وسیلهٔ یک انسان آمد، همان‌طور قیامت از مردگان نیز به وسیلهٔ یک انسان دیگر فرا رسید.
جس طرح سب اِس لئے مرتے ہیں کہ وہ آدم کے فرزند ہیں اُسی طرح سب زندہ کئے جائیں گے جو مسیح کے ہیں۔
و همان‌طور كه همهٔ آدمیان به‌خاطر همبستگی با آدم می‌میرند، تمام کسانی‌که با مسیح متّحدند، زنده خواهند شد.
لیکن جی اُٹھنے کی ایک ترتیب ہے۔ مسیح تو فصل کے پہلے پھل کی حیثیت سے جی اُٹھ چکا ہے جبکہ اُس کے لوگ اُس وقت جی اُٹھیں گے جب وہ واپس آئے گا۔
امّا هركس به نوبت خود زنده می‌شود: اول مسیح و بعد در وقت آمدن او آنانی كه متعلّق به او هستند.
اِس کے بعد خاتمہ ہو گا۔ تب ہر حکومت، اختیار اور قوت کو نیست کر کے وہ بادشاہی کو خدا باپ کے حوالے کر دے گا۔
پس از آن پایان كار فرا خواهد رسید و مسیح تمام فرمانروایان و قوّتها و قدرتها را برانداخته و پادشاهی را به خدای پدر خواهد سپرد.
کیونکہ لازم ہے کہ مسیح اُس وقت تک حکومت کرے جب تک اللہ تمام دشمنوں کو اُس کے پاؤں کے نیچے نہ کر دے۔
زیرا تا آن زمانی‌که خدا همهٔ دشمنان را زیر پای مسیح نگذارد او باید به سلطنت خود ادامه دهد.
آخری دشمن جسے نیست کیا جائے گا موت ہو گی۔
آخرین دشمنی كه بر انداخته می‌شود، مرگ است.
کیونکہ اللہ کے بارے میں کلامِ مُقدّس میں لکھا ہے، ”اُس نے سب کچھ اُس (یعنی مسیح) کے پاؤں کے نیچے کر دیا۔“ جب کہا گیا ہے کہ سب کچھ مسیح کے ماتحت کر دیا گیا ہے، تو ظاہر ہے کہ اِس میں اللہ شامل نہیں جس نے سب کچھ مسیح کے ماتحت کیا ہے۔
كلام خدا می‌گوید كه خدا همه‌چیز را زیر پای مسیح قرار داده است. ولی البتّه معلوم است كه عبارت «همه‌چیز» شامل خدا، كه همه‌چیز را تحت فرمان مسیح می‌گذارد، نمی‌شود.
جب سب کچھ مسیح کے ماتحت کر دیا گیا تب فرزند خود بھی اُسی کے ماتحت ہو جائے گا جس نے سب کچھ اُس کے ماتحت کیا۔ یوں اللہ سب میں سب کچھ ہو گا۔
وقتی‌که همه‌چیز تحت فرمان مسیح قرار بگیرد، مسیح نیز كه پسر خداست، خود را در اختیار خدا كه همه‌چیز را به فرمان او گذاشت، قرار خواهد داد تا خدا بر كلّ كاینات حاكم گردد.
اگر مُردے واقعی جی نہیں اُٹھتے تو پھر وہ لوگ کیا کریں گے جو مُردوں کی خاطر بپتسمہ لیتے ہیں؟ اگر مُردے جی نہیں اُٹھیں گے تو پھر وہ اُن کی خاطر کیوں بپتسمہ لیتے ہیں؟
در غیر این صورت برای چه عدّه‌ای از طرف مردگان تعمید می‌گیرند؟ اگر مردگان اصلاً زنده نمی‌شوند، چرا دیگران به نام ایشان تعمید می‌گیرند؟
اور ہم بھی ہر وقت اپنی جان خطرے میں کیوں ڈالے ہوئے ہیں؟
و ما چرا باید در تمام ساعات زندگی با خطر روبه‌رو باشیم؟
بھائیو، مَیں روزانہ مرتا ہوں۔ یہ بات اُتنی ہی یقینی ہے جتنی یہ کہ آپ ہمارے خداوند مسیح عیسیٰ میں میرا فخر ہیں۔
ای دوستان من، چون به اتّحاد شما با خداوند، عیسی مسیح افتخار می‌کنم، سوگند می‌‌‌‌‌‌خورم كه هر روز با مرگ روبه‌رو می‌شوم.
اگر مَیں صرف اِسی زندگی کی اُمید رکھتے ہوئے اِفسس میں وحشی درندوں سے لڑا تو مجھے کیا فائدہ ہوا؟ اگر مُردے جی نہیں اُٹھتے تو اِس قول کے مطابق زندگی گزارنا بہتر ہو گا کہ ”آؤ، ہم کھائیں پئیں، کیونکہ کل تو مر ہی جانا ہے۔“
اگر من فقط از روی انگیزه‌های انسانی در افسس با جانوران می‌جنگیدم چه چیزی عاید من می‌شد؟ اگر مردگان زنده نمی‌شوند، پس «بخوریم و بنوشیم، زیرا فردا خواهیم مرد.»
فریب نہ کھائیں، بُری صحبت اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہے۔
گول نخورید، معاشران بد، اخلاق خوب را فاسد می‌سازند.
پورے طور پر ہوش میں آئیں اور گناہ نہ کریں۔ آپ میں سے بعض ایسے ہیں جو اللہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ یہ بات مَیں آپ کو شرم دلانے کے لئے کہتا ہوں۔
درست فكر كنید و دیگر گناه نكنید. زیرا بعضی از شما خدا را نمی‌شناسید و این را برای شرمساری شما می‌گویم.
شاید کوئی سوال اُٹھائے، ”مُردے کس طرح جی اُٹھتے ہیں؟ اور جی اُٹھنے کے بعد اُن کا جسم کیسا ہو گا؟“
شاید كسی بپرسد: «مردگان چگونه زنده می‌شوند و با چه نوع بدنی ظاهر می‌شوند؟»
بھئی، عقل سے کام لیں۔ جو بیج آپ بوتے ہیں وہ اُس وقت تک نہیں اُگتا جب تک کہ مر نہ جائے۔
ای نادانان، وقتی تخمی در زمین می‌كارید، آن زنده نخواهد شد، مگر اینكه اول بمیرد.
جو آپ بوتے ہیں وہ وہی پودا نہیں ہے جو بعد میں اُگے گا بلکہ محض ایک ننگا سا دانہ ہے، خواہ گندم کا ہو یا کسی اَور چیز کا۔
و آنچه می‌کاری فقط یک دانه است، خواه یک دانهٔ گندم باشد یا هر دانهٔ دیگر و آن هنوز شكل نهایی خود را نگرفته است.
لیکن اللہ اُسے ایسا جسم دیتا ہے جیسا وہ مناسب سمجھتا ہے۔ ہر قسم کے بیج کو وہ اُس کا خاص جسم عطا کرتا ہے۔
خدا بر طبق ارادهٔ خود بدنی به آن می‌دهد و به هر نوع تخم، بدنی مخصوص می‌بخشد.
تمام جانداروں کو ایک جیسا جسم نہیں ملا بلکہ انسانوں کو اَور قسم کا، مویشیوں کو اَور قسم کا، پرندوں کو اَور قسم کا، اور مچھلیوں کو اَور قسم کا۔
گوشت همهٔ موجودات زنده یک جور نیست، گوشت آدمیان یک جور است و هر دسته از حیوانات، پرندگان و ماهیان گوشت مخصوص به خود دارند.
اِس کے علاوہ آسمانی جسم بھی ہیں اور زمینی جسم بھی۔ آسمانی جسموں کی شان اَور ہے اور زمینی جسموں کی شان اَور۔
اجسام آسمانی با اجسام زمینی فرق دارند و زیبایی‌های آنها نیز با هم متفاوت است.
سورج کی شان اَور ہے، چاند کی شان اَور، اور ستاروں کی شان اَور، بلکہ ایک ستارہ شان میں دوسرے ستارے سے فرق ہے۔
زیبایی خورشید یک‌جور است و زیبایی ماه و ستارگان نحوی دیگر و حتّی در میان ستارگان زیبایی‌های گوناگون یافت می‌شود.
مُردوں کا جی اُٹھنا بھی ایسا ہی ہے۔ جسم فانی حالت میں بویا جاتا ہے اور لافانی حالت میں جی اُٹھتا ہے۔
زنده‌شدن مردگان نیز چنین خواهد بود، آنچه به خاک سپرده می‌شود فانی است و آنچه برمی‌خیزد فناناپذیر است.
وہ ذلیل حالت میں بویا جاتا ہے اور جلالی حالت میں جی اُٹھتا ہے۔ وہ کمزور حالت میں بویا جاتا ہے اور قوی حالت میں جی اُٹھتا ہے۔
آنچه به خاک می‌رود ذلیل و خار است. آنچه برمی‌خیزد پرجلال است. در ضعف و ناتوانی كاشته می‌شود و در قدرت سبز می‌شود.
فطرتی جسم بویا جاتا ہے اور روحانی جسم جی اُٹھتا ہے۔ جہاں فطرتی جسم ہے وہاں روحانی جسم بھی ہوتا ہے۔
بدن جسمانی به خاک سپرده می‌شود و بدن روحانی برمی‌خیزد. همچنان‌كه بدن جسمانی هست، بدن روحانی نیز وجود دارد.
پاک نوشتوں میں بھی لکھا ہے کہ پہلے انسان آدم میں جان آ گئی۔ لیکن آخری آدم زندہ کرنے والی روح بنا۔
در این خصوص کتاب‌مقدّس می‌فرماید: «اولین انسان یعنی آدم، نفس زنده گشت.» امّا آدم آخر روح حیات بخش گردید.
روحانی جسم پہلے نہیں تھا بلکہ فطرتی جسم، پھر روحانی جسم ہوا۔
آنچه روحانی است، اول نمی‌آید. اول جسمانی و بعد از آن روحانی می‌آید.
پہلا انسان زمین کی مٹی سے بنا تھا، لیکن دوسرا آسمان سے آیا۔
آدم اول از خاک زمین ساخته شد و آدم دوم از آسمان آمد.
جیسا پہلا خاکی انسان تھا ویسے ہی دیگر خاکی انسان بھی ہیں، اور جیسا آسمان سے آیا ہوا انسان ہے ویسے ہی دیگر آسمانی انسان بھی ہیں۔
خاكیان به او كه از خاک ساخته شد شبیه‌اند و آسمانی‌ها هم به او كه از آسمان آمد شباهت دارند.
یوں ہم اِس وقت خاکی انسان کی شکل و صورت رکھتے ہیں جبکہ ہم اُس وقت آسمانی انسان کی شکل و صورت رکھیں گے۔
همان‌گونه كه شكل خاكی به خود گرفتیم، شكل آسمانی نیز به خود خواهیم گرفت.
بھائیو، مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خاکی انسان کا موجودہ جسم اللہ کی بادشاہی کو میراث میں نہیں پا سکتا۔ جو کچھ فانی ہے وہ لافانی چیزوں کو میراث میں نہیں پا سکتا۔
ای دوستان، مقصودم این است كه آنچه از گوشت و خون ساخته شده است، نمی‌تواند در پادشاهی خدا سهیم گردد و آنچه فانی است، نمی‌تواند در فناناپذیری نصیبی داشته باشد.
دیکھو مَیں آپ کو ایک بھید بتاتا ہوں۔ ہم سب وفات نہیں پائیں گے، لیکن سب ہی بدل جائیں گے۔
گوش دهید تا رازی را برای شما فاش سازم. همهٔ ما نخواهیم مرد؛
اور یہ اچانک، آنکھ جھپکتے میں، آخری بِگل بجتے ہی رونما ہو گا۔ کیونکہ بِگل بجنے پر مُردے لافانی حالت میں جی اُٹھیں گے اور ہم بدل جائیں گے۔
بلكه در یک لحظه با یک چشم بهم‌زدن به محض آنكه شیپور آخر شنیده شود، تغییر خواهیم یافت. زیرا شیپور به صدا در می‌آید و مردگان برای حیات فناناپذیر زنده می‌شوند و ما نیز تغییر خواهیم یافت.
کیونکہ لازم ہے کہ یہ فانی جسم بقا کا لباس پہن لے اور مرنے والا جسم ابدی زندگی کا۔
زیرا فنا باید با بقاء پوشیده شود و مرگ به حیات جاودان ملبّس گردد.
جب اِس فانی اور مرنے والے جسم نے بقا اور ابدی زندگی کا لباس پہن لیا ہو گا تو پھر وہ کلام پورا ہو گا جو پاک نوشتوں میں لکھا ہے کہ ”موت الٰہی فتح کا لقمہ ہو گئی ہے۔
زمانی‌که فنا با بقا و مرگ با حیات پوشیده شود آنچه كلام خدا می‌فرماید به حقیقت خواهد پیوست كه «مرگ نابود گشته و پیروزی، كامل گردیده است.»
اے موت، تیری فتح کہاں رہی؟ اے موت، تیرا ڈنک کہاں رہا؟“
«ای مرگ، پیروزی تو كجاست و ای موت نیش تو كجا؟»
موت کا ڈنک گناہ ہے اور گناہ شریعت سے تقویت پاتا ہے۔
نیش مرگ از گناه زهرآگین می‌شود و گناه از شریعت قدرت می‌گیرد.
لیکن خدا کا شکر ہے جو ہمیں ہمارے خداوند عیسیٰ مسیح کے وسیلے سے فتح بخشتا ہے۔
امّا خدا را شكر كه او به وسیلهٔ خداوند ما عیسی مسیح به ما پیروزی بخشیده است.
غرض، میرے پیارے بھائیو، مضبوط بنے رہیں۔ کوئی چیز آپ کو ڈانواں ڈول نہ کر دے۔ ہمیشہ خداوند کی خدمت جاں فشانی سے کریں، یہ جانتے ہوئے کہ خداوند کے لئے آپ کی محنت مشقت رائیگاں نہیں جائے گی۔
بنابراین ای دوستان عزیز من، پابرجا و استوار بمانید. همیشه در كار و خدمت خداوند مشغول باشید؛ زیرا می‌دانید كه زحمات شما در خدمت او بی‌نتیجه نخواهد بود.