چنانچہ یوسف گلیل کے شہر ناصرت سے روانہ ہو کر یہودیہ کے شہر بیت لحم پہنچا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ داؤد بادشاہ کے گھرانے اور نسل سے تھا، اور بیت لحم داؤد کا شہر تھا۔
پھر چرواہے لوٹ گئے اور چلتے چلتے اُن تمام باتوں کے لئے اللہ کی تعظیم و تعریف کرتے رہے جو اُنہوں نے سنی اور دیکھی تھیں، کیونکہ سب کچھ ویسا ہی پایا تھا جیسا فرشتے نے اُنہیں بتایا تھا۔
اُس وقت یروشلم میں ایک آدمی بنام شمعون رہتا تھا۔ وہ راست باز اور خدا ترس تھا اور اِس انتظار میں تھا کہ مسیح آ کر اسرائیل کو سکون بخشے۔ روح القدس اُس پر تھا،
اُس دن روح القدس نے اُسے تحریک دی کہ وہ بیت المُقدّس میں جائے۔ چنانچہ جب مریم اور یوسف بچے کو رب کی شریعت کے مطابق پیش کرنے کے لئے بیت المُقدّس میں آئے
شمعون نے اُنہیں برکت دی اور مریم سے کہا، ”یہ بچہ مقرر ہوا ہے کہ اسرائیل کے بہت سے لوگ اِس سے ٹھوکر کھا کر گر جائیں، لیکن بہت سے اِس سے اپنے پاؤں پر کھڑے بھی ہو جائیں گے۔ گو یہ اللہ کی طرف سے ایک اشارہ ہے توبھی اِس کی مخالفت کی جائے گی۔
وہاں بیت المُقدّس میں ایک عمر رسیدہ نبیہ بھی تھی جس کا نام حناہ تھا۔ وہ فنوایل کی بیٹی اور آشر کے قبیلے سے تھی۔ شادی کے سات سال بعد اُس کا شوہر مر گیا تھا۔
اُس وقت وہ مریم اور یوسف کے پاس آ کر اللہ کی تمجید کرنے لگی۔ ساتھ ساتھ وہ ہر ایک کو جو اِس انتظار میں تھا کہ اللہ فدیہ دے کر یروشلم کو چھڑائے، بچے کے بارے میں بتاتی رہی۔
کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ وہ قافلے میں کہیں موجود ہے۔ لیکن چلتے چلتے پہلا دن گزر گیا اور وہ اب تک نظر نہ آیا تھا۔ اِس پر والدین اُسے اپنے رشتے داروں اور عزیزوں میں ڈھونڈنے لگے۔
اُسے دیکھ کر اُس کے والدین گھبرا گئے۔ اُس کی ماں نے کہا، ”بیٹا، تُو نے ہمارے ساتھ یہ کیوں کیا؟ تیرا باپ اور مَیں تجھے ڈھونڈتے ڈھونڈتے شدید کوفت کا شکار ہوئے۔“