Job 15

فَأَجَابَ أَلِيفَازُ التَّيْمَانِيُّ وَقَالَ:
تب اِلی فز تیمانی نے جواب دے کر کہا،
«أَلَعَلَّ الْحَكِيمَ يُجِيبُ عَنْ مَعْرِفَةٍ بَاطِلَةٍ، وَيَمْلأُ بَطْنَهُ مِنْ رِيحٍ شَرْقِيَّةٍ،
”کیا دانش مند کو جواب میں بےہودہ خیالات پیش کرنے چاہئیں؟ کیا اُسے اپنا پیٹ تپتی مشرقی ہَوا سے بھرنا چاہئے؟
فَيَحْتَجَّ بِكَلاَمٍ لاَ يُفِيدُ، وَبِأَحَادِيثَ لاَ يَنْتَفِعُ بِهَا؟
کیا مناسب ہے کہ وہ فضول بحث مباحثہ کرے، ایسی باتیں کرے جو بےفائدہ ہیں؟ ہرگز نہیں!
أَمَّا أَنْتَ فَتُنَافِي الْمَخَافَةَ، وَتُنَاقِضُ التَّقْوَى لَدَى اللهِ.
لیکن تیرا رویہ اِس سے کہیں بُرا ہے۔ تُو اللہ کا خوف چھوڑ کر اُس کے حضور غور و خوض کرنے کا فرض حقیر جانتا ہے۔
لأَنَّ فَمَكَ يُذِيعُ إِثْمَكَ، وَتَخْتَارُ لِسَانَ الْمُحْتَالِينَ.
تیرا قصور ہی تیرے منہ کو ایسی باتیں کرنے کی تحریک دے رہا ہے، اِسی لئے تُو نے چالاکوں کی زبان اپنا لی ہے۔
إِنَّ فَمَكَ يَسْتَذْنِبُكَ، لاَ أَنَا، وَشَفَتَاكَ تَشْهَدَانِ عَلَيْكَ.
مجھے تجھے قصوروار ٹھہرانے کی ضرورت ہی نہیں، کیونکہ تیرا اپنا ہی منہ تجھے مجرم ٹھہراتا ہے، تیرے اپنے ہی ہونٹ تیرے خلاف گواہی دیتے ہیں۔
«أَصُوِّرْتَ أَوَّلَ النَّاسِ أَمْ أُبْدِئْتَ قَبْلَ التِّلاَلِ؟
کیا تُو سب سے پہلے پیدا ہوا انسان ہے؟ کیا تُو نے پہاڑوں سے پہلے ہی جنم لیا؟
هَلْ تَنَصَّتَّ فِي مَجْلِسِ اللهِ، أَوْ قَصَرْتَ الْحِكْمَةَ عَلَى نَفْسِكَ؟
جب اللہ کی مجلس منعقد ہو جائے تو کیا تُو بھی اُن کی باتیں سنتا ہے؟ کیا صرف تجھے ہی حکمت حاصل ہے؟
مَاذَا تَعْرِفُهُ وَلاَ نَعْرِفُهُ نَحْنُ؟ وَمَاذَا تَفْهَمُ وَلَيْسَ هُوَ عِنْدَنَا؟
تُو کیا جانتا ہے جو ہم نہیں جانتے؟ تجھے کس بات کی سمجھ آئی ہے جس کا علم ہم نہیں رکھتے؟
عِنْدَنَا الشَّيْخُ وَالأَشْيَبُ، أَكْبَرُ أَيَّامًا مِنْ أَبِيكَ.
ہمارے درمیان بھی عمر رسیدہ بزرگ ہیں، ایسے آدمی جو تیرے والد سے بھی بوڑھے ہیں۔
أَقَلِيلَةٌ عِنْدَكَ تَعْزِيَاتُ اللهِ، وَالْكَلاَمُ مَعَكَ بِالرِّفْقِ؟
اے ایوب، کیا تیری نظر میں اللہ کی تسلی دینے والی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں؟ کیا تُو اِس کی قدر نہیں کر سکتا کہ نرمی سے تجھ سے بات کی جا رہی ہے؟
«لِمَاذَا يَأْخُذُكَ قَلْبُكَ؟ وَلِمَاذَا تَخْتَلِجُ عَيْنَاكَ
تیرے دل کے جذبات تجھے یوں اُڑا کر کیوں لے جائیں، تیری آنکھیں کیوں اِتنی چمک اُٹھیں
حَتَّى تَرُدَّ عَلَى اللهِ وَتُخْرِجَ مِنْ فِيكَ أَقْوَالاً؟
کہ آخرکار تُو اپنا غصہ اللہ پر اُتار کر ایسی باتیں اپنے منہ سے اُگل دے؟
مَنْ هُوَ الإِنْسَانُ حَتَّى يَزْكُو، أَوْ مَوْلُودُ الْمَرْأَةِ حَتَّى يَتَبَرَّرَ؟
بھلا انسان کیا ہے کہ پاک صاف ٹھہرے؟ عورت سے پیدا ہوئی مخلوق کیا ہے کہ راست باز ثابت ہو؟ کچھ بھی نہیں!
هُوَذَا قِدِّيسُوهُ لاَ يَأْتَمِنُهُمْ، وَالسَّمَاوَاتُ غَيْرُ طَاهِرَةٍ بِعَيْنَيْهِ،
اللہ تو اپنے مُقدّس خادموں پر بھی بھروسا نہیں رکھتا، بلکہ آسمان بھی اُس کی نظر میں پاک نہیں ہے۔
فَبِالْحَرِيِّ مَكْرُوهٌ وَفَاسِدٌ الإِنْسَانُ الشَّارِبُ الإِثْمَ كَالْمَاءِ!
تو پھر وہ انسان پر بھروسا کیوں رکھے جو قابلِ گھن اور بگڑا ہوا ہے، جو بُرائی کو پانی کی طرح پی لیتا ہے۔
«أُوحِي إِلَيْكَ، اسْمَعْ لِي فَأُحَدِّثَ بِمَا رَأَيْتُهُ،
میری بات سن، مَیں تجھے کچھ سنانا چاہتا ہوں۔ مَیں تجھے وہ کچھ بیان کروں گا جو مجھ پر ظاہر ہوا ہے،
مَا أَخْبَرَ بِهِ حُكَمَاءُ عَنْ آبَائِهِمْ فَلَمْ يَكْتُمُوهُ.
وہ کچھ جو دانش مندوں نے پیش کیا اور جو اُنہیں اپنے باپ دادا سے ملا تھا۔ اُن سے کچھ چھپایا نہیں گیا تھا۔
الَّذِينَ لَهُمْ وَحْدَهُمْ أُعْطِيَتِ الأَرْضُ، وَلَمْ يَعْبُرْ بَيْنَهُمْ غَرِيبٌ.
(باپ دادا سے مراد وہ واحد لوگ ہیں جنہیں اُس وقت ملک دیا گیا جب کوئی بھی پردیسی اُن میں نہیں پھرتا تھا)۔
الشِّرِّيرُ هُوَ يَتَلَوَّى كُلَّ أَيَّامِهِ، وَكُلَّ عَدَدِ السِّنِينَ الْمَعْدُودَةِ لِلْعَاتِي.
وہ کہتے تھے، بےدین اپنے تمام دن ڈر کے مارے تڑپتا رہتا، اور جتنے بھی سال ظالم کے لئے محفوظ رکھے گئے ہیں اُتنے ہی سال وہ پیچ و تاب کھاتا رہتا ہے۔
صَوْتُ رُعُوبٍ فِي أُذُنَيْهِ. فِي سَاعَةِ سَلاَمٍ يَأْتِيهِ الْمُخَرِّبُ.
دہشت ناک آوازیں اُس کے کانوں میں گونجتی رہتی ہیں، اور امن و امان کے وقت ہی تباہی مچانے والا اُس پر ٹوٹ پڑتا ہے۔
لاَ يَأْمُلُ الرُّجُوعَ مِنَ الظُّلْمَةِ، وَهُوَ مُرْتَقَبٌ لِلسَّيْفِ.
اُسے اندھیرے سے بچنے کی اُمید ہی نہیں، کیونکہ اُسے تلوار کے لئے تیار رکھا گیا ہے۔
تَائِهٌ هُوَ لأَجْلِ الْخُبْزِ حَيْثُمَا يَجِدُهُ، وَيَعْلَمُ أَنَّ يَوْمَ الظُّلْمَةِ مُهَيَّأٌ بَيْنَ يَدَيْهِ.
وہ مارا مارا پھرتا ہے، آخرکار وہ گِدھوں کی خورک بنے گا۔ اُسے خود علم ہے کہ تاریکی کا دن قریب ہی ہے۔
يُرْهِبُهُ الضُّرُّ وَالضَّيْقُ. يَتَجَبَّرَانِ عَلَيْهِ كَمَلِكٍ مُسْتَعِدٍّ لِلْوَغَى.
تنگی اور مصیبت اُسے دہشت کھلاتی، حملہ آور بادشاہ کی طرح اُس پر غالب آتی ہیں۔
لأَنَّهُ مَدَّ عَلَى اللهِ يَدَهُ، وَعَلَى الْقَدِيرِ تَجَبَّرَ
اور وجہ کیا ہے؟ یہ کہ اُس نے اپنا ہاتھ اللہ کے خلاف اُٹھایا، قادرِ مطلق کے سامنے تکبر دکھایا ہے۔
عَادِيًا عَلَيْهِ، مُتَصَلِّبُ الْعُنُقِ بِأَوْقَافِ مَجَانِّهِ مُعَبَّأَةً.
اپنی موٹی اور مضبوط ڈھال کی پناہ میں اکڑ کر وہ تیزی سے اللہ پر حملہ کرتا ہے۔
لأَنَّهُ قَدْ كَسَا وَجْهَهُ سَمْنًا، وَرَبَّى شَحْمًا عَلَى كِلْيَتَيْهِ،
گو اِس وقت اُس کا چہرہ چربی سے چمکتا اور اُس کی کمر موٹی ہے،
فَيَسْكُنُ مُدُنًا خَرِبَةً، بُيُوتًا غَيْرَ مَسْكُونَةٍ عَتِيدَةً أَنْ تَصِيرَ رُجَمًا.
لیکن آئندہ وہ تباہ شدہ شہروں میں بسے گا، ایسے مکانوں میں جو سب کے چھوڑے ہوئے ہیں اور جو جلد ہی پتھر کے ڈھیر بن جائیں گے۔
لاَ يَسْتَغْنِي، وَلاَ تَثْبُتُ ثَرْوَتُهُ، وَلاَ يَمْتَدُّ فِي الأَرْضِ مُقْتَنَاهُ.
وہ امیر نہیں ہو گا، اُس کی دولت قائم نہیں رہے گی، اُس کی جائیداد ملک میں پھیلی نہیں رہے گی۔
لاَ تَزُولُ عَنْهُ الظُّلْمَةُ. خَرَاعِيبُهُ تُيَبِّسُهَا السُّمُومُ، وَبِنَفْخَةِ فَمِهِ يَزُولُ.
وہ تاریکی سے نہیں بچے گا۔ شعلہ اُس کی کونپلوں کو مُرجھانے دے گا، اور اللہ اُسے اپنے منہ کی ایک پھونک سے اُڑا کر تباہ کر دے گا۔
لاَ يَتَّكِلْ عَلَى السُّوءِ. يَضِلُّ. لأَنَّ السُّوءَ يَكُونُ أُجْرَتَهُ.
وہ دھوکے پر بھروسا نہ کرے، ورنہ وہ بھٹک جائے گا اور اُس کا اجر دھوکا ہی ہو گا۔
قَبْلَ يَوْمِهِ يُتَوَفَّى، وَسَعَفُهُ لاَ يَخْضَرُّ.
وقت سے پہلے ہی اُسے اِس کا پورا معاوضہ ملے گا، اُس کی کونپل کبھی نہیں پھلے پھولے گی۔
يُسَاقِطُ كَالْجَفْنَةِ حِصْرِمَهُ، وَيَنْثُرُ كَالزَّيْتُونِ زَهْرُهُ.
وہ انگور کی اُس بیل کی مانند ہو گا جس کا پھل کچی حالت میں ہی گر جائے، زیتون کے اُس درخت کی مانند جس کے تمام پھول جھڑ جائیں۔
لأَنَّ جَمَاعَةَ الْفُجَّارِ عَاقِرٌ، وَالنَّارُ تَأْكُلُ خِيَامَ الرَّشْوَةِ.
کیونکہ بےدینوں کا جتھا بنجر رہے گا، اور آگ رشوت خوروں کے خیموں کو بھسم کرے گی۔
حَبِلَ شَقَاوَةً وَوَلَدَ إِثْمًا، وَبَطْنُهُ أَنْشَأَ غِشًّا».
اُن کے پاؤں دُکھ درد سے بھاری ہو جاتے، اور وہ بُرائی کو جنم دیتے ہیں۔ اُن کا پیٹ دھوکا ہی پیدا کرتا ہے۔“