شہر میں ایک حوض تھا جس کا نام اَرامی زبان میں بیت حسدا تھا۔ اُس کے پانچ بڑے برآمدے تھے اور وہ شہر کے اُس دروازے کے قریب تھا جس کا نام ’بھیڑوں کا دروازہ‘ ہے۔
[کیونکہ گاہے بگاہے رب کا فرشتہ اُتر کر پانی کو ہلا دیتا تھا۔ جو بھی اُس وقت اُس میں پہلے داخل ہو جاتا اُسے شفا مل جاتی تھی خواہ اُس کی بیماری کوئی بھی کیوں نہ ہوتی۔]
اُس نے جواب دیا، ”خداوند، یہ مشکل ہے۔ میرا کوئی ساتھی نہیں جو مجھے اُٹھا کر پانی میں جب اُسے ہلایا جاتا ہے لے جائے۔ اِس لئے میرے وہاں پہنچنے میں اِتنی دیر لگ جاتی ہے کہ کوئی اَور مجھ سے پہلے پانی میں اُتر جاتا ہے۔“
یہ سن کر یہودی اُسے قتل کرنے کی مزید کوشش کرنے لگے، کیونکہ اُس نے نہ صرف سبت کے دن کو منسوخ قرار دیا تھا بلکہ اللہ کو اپنا باپ کہہ کر اپنے آپ کو اللہ کے برابر ٹھہرایا تھا۔
عیسیٰ نے اُنہیں جواب دیا، ”مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ فرزند اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتا۔ وہ صرف وہ کچھ کرتا ہے جو وہ باپ کو کرتے دیکھتا ہے۔ جو کچھ باپ کرتا ہے وہی فرزند بھی کرتا ہے،
کیونکہ باپ فرزند کو پیار کرتا اور اُسے سب کچھ دکھاتا ہے جو وہ خود کرتا ہے۔ ہاں، وہ فرزند کو اِن سے بھی عظیم کام دکھائے گا۔ پھر تم اَور بھی زیادہ حیرت زدہ ہو گے۔
مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں، جو بھی میری بات سن کر اُس پر ایمان لاتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے ابدی زندگی اُس کی ہے۔ اُسے مجرم نہیں ٹھہرایا جائے گا بلکہ وہ موت کی گرفت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو گیا ہے۔
قبروں میں سے نکل آئیں گے۔ جنہوں نے نیک کام کیا وہ جی اُٹھ کر زندگی پائیں گے جبکہ جنہوں نے بُرا کام کیا وہ جی تو اُٹھیں گے لیکن اُن کی عدالت کی جائے گی۔
مَیں اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتا بلکہ جو کچھ باپ سے سنتا ہوں اُس کے مطابق عدالت کرتا ہوں۔ اور میری عدالت راست ہے کیونکہ مَیں اپنی مرضی کرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ اُسی کی جس نے مجھے بھیجا ہے۔
لیکن میرے پاس ایک اَور گواہ ہے جو یحییٰ کی نسبت زیادہ اہم ہے یعنی وہ کام جو باپ نے مجھے مکمل کرنے کے لئے دے دیا۔ یہی کام جو مَیں کر رہا ہوں میرے بارے میں گواہی دیتا ہے کہ باپ نے مجھے بھیجا ہے۔