Proverbs 1

ذیل میں اسرائیل کے بادشاہ سلیمان بن داؤد کی امثال قلم بند ہیں۔
parabolae Salomonis filii David regis Israhel
اِن سے تُو حکمت اور تربیت حاصل کرے گا، بصیرت کے الفاظ سمجھنے کے قابل ہو جائے گا،
ad sciendam sapientiam et disciplinam
اور دانائی دلانے والی تربیت، راستی، انصاف اور دیانت داری اپنائے گا۔
ad intellegenda verba prudentiae et suscipiendam eruditionem doctrinae iustitiam et iudicium et aequitatem
یہ امثال سادہ لوح کو ہوشیاری اور نوجوان کو علم اور تمیز سکھاتی ہیں۔
ut detur parvulis astutia adulescenti scientia et intellectus
جو دانا ہے وہ سن کر اپنے علم میں اضافہ کرے، جو سمجھ دار ہے وہ راہنمائی کرنے کا فن سیکھ لے۔
audiens sapiens sapientior erit et intellegens gubernacula possidebit
تب وہ امثال اور تمثیلیں، دانش مندوں کی باتیں اور اُن کے معمے سمجھ لے گا۔
animadvertet parabolam et interpretationem verba sapientium et enigmata eorum
حکمت اِس سے شروع ہوتی ہے کہ ہم رب کا خوف مانیں۔ صرف احمق حکمت اور تربیت کو حقیر جانتے ہیں۔
timor Domini principium scientiae sapientiam atque doctrinam stulti despiciunt
میرے بیٹے، اپنے باپ کی تربیت کے تابع رہ، اور اپنی ماں کی ہدایت مسترد نہ کر۔
audi fili mi disciplinam patris tui et ne dimittas legem matris tuae
کیونکہ یہ تیرے سر پر دل کش سہرا اور تیرے گلے میں گلوبند ہیں۔
ut addatur gratia capiti tuo et torques collo tuo
میرے بیٹے، جب خطاکار تجھے پُھسلانے کی کوشش کریں تو اُن کے پیچھے نہ ہو لے۔
fili mi si te lactaverint peccatores ne adquiescas
اُن کی بات نہ مان جب وہ کہیں، ”آ، ہمارے ساتھ چل! ہم تاک میں بیٹھ کر کسی کو قتل کریں، بلاوجہ کسی بےقصور کی گھات لگائیں۔
si dixerint veni nobiscum insidiemur sanguini abscondamus tendiculas contra insontem frustra
ہم اُنہیں پاتال کی طرح زندہ نگل لیں، اُنہیں موت کے گڑھے میں اُترنے والوں کی طرح ایک دم ہڑپ کر لیں۔
degluttiamus eum sicut infernus viventem et integrum quasi descendentem in lacum
ہم ہر قسم کی قیمتی چیز حاصل کریں گے، اپنے گھروں کو لُوٹ کے مال سے بھر لیں گے۔
omnem pretiosam substantiam repperiemus implebimus domos nostras spoliis
آ، جرٲت کر کے ہم میں شریک ہو جا، ہم لُوٹ کا تمام مال برابر تقسیم کریں گے۔“
sortem mitte nobiscum marsuppium unum sit omnium nostrum
میرے بیٹے، اُن کے ساتھ مت جانا، اپنا پاؤں اُن کی راہوں پر رکھنے سے روک لینا۔
fili mi ne ambules cum eis prohibe pedem tuum a semitis eorum
کیونکہ اُن کے پاؤں غلط کام کے پیچھے دوڑتے، خون بہانے کے لئے بھاگتے ہیں۔
pedes enim illorum ad malum currunt et festinant ut effundant sanguinem
جب چڑی مار اپنا جال لگا کر اُس پر پرندوں کو پھانسنے کے لئے روٹی کے ٹکڑے بکھیر دیتا ہے تو پرندوں کی نظر میں یہ بےمقصد ہے۔
frustra autem iacitur rete ante oculos pinnatorum
یہ لوگ بھی ایک دن پھنس جائیں گے۔ جب تاک میں بیٹھ جاتے ہیں تو اپنے آپ کو تباہ کرتے ہیں، جب دوسروں کی گھات لگاتے ہیں تو اپنی ہی جان کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
ipsique contra sanguinem suum insidiantur et moliuntur fraudes contra animas suas
یہی اُن سب کا انجام ہے جو ناروا نفع کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ ناجائز نفع اپنے مالک کی جان چھین لیتا ہے۔
sic semitae omnis avari animas possidentium rapiunt
حکمت گلی میں زور سے آواز دیتی، چوکوں میں بلند آواز سے پکارتی ہے۔
sapientia foris praedicat in plateis dat vocem suam
جہاں سب سے زیادہ شور شرابہ ہے وہاں وہ چلّاچلّا کر بولتی، شہر کے دروازوں پر ہی اپنی تقریر کرتی ہے،
in capite turbarum clamitat in foribus portarum urbis profert verba sua dicens
”اے سادہ لوح لوگو، تم کب تک اپنی سادہ لوحی سے محبت رکھو گے؟ مذاق اُڑانے والے کب تک اپنے مذاق سے لطف اُٹھائیں گے، احمق کب تک علم سے نفرت کریں گے؟
usquequo parvuli diligitis infantiam et stulti ea quae sibi sunt noxia cupiunt et inprudentes odibunt scientiam
آؤ، میری سرزنش پر دھیان دو۔ تب مَیں اپنی روح کا چشمہ تم پر پھوٹنے دوں گی، تمہیں اپنی باتیں سناؤں گی۔
convertimini ad correptionem meam en proferam vobis spiritum meum et ostendam verba mea
لیکن جب مَیں نے آواز دی تو تم نے انکار کیا، جب مَیں نے اپنا ہاتھ تمہاری طرف بڑھایا تو کسی نے بھی توجہ نہ دی۔
quia vocavi et rennuistis extendi manum meam et non fuit qui aspiceret
تم نے میرے کسی مشورے کی پروا نہ کی، میری ملامت تمہارے نزدیک قابلِ قبول نہیں تھی۔
despexistis omne consilium meum et increpationes meas neglexistis
اِس لئے جب تم پر آفت آئے گی تو مَیں قہقہہ لگاؤں گی، جب تم ہول ناک مصیبت میں پھنس جاؤ گے تو تمہارا مذاق اُڑاؤں گی۔
ego quoque in interitu vestro ridebo et subsannabo cum vobis quod timebatis advenerit
اُس وقت تم پر دہشت ناک آندھی ٹوٹ پڑے گی، آفت طوفان کی طرح تم پر آئے گی، اور تم مصیبت اور تکلیف کے سیلاب میں ڈوب جاؤ گے۔
cum inruerit repentina calamitas et interitus quasi tempestas ingruerit quando venerit super vos tribulatio et angustia
تب وہ مجھے آواز دیں گے، لیکن مَیں اُن کی نہیں سنوں گی، وہ مجھے ڈھونڈیں گے پر پائیں گے نہیں۔
tunc invocabunt me et non exaudiam mane consurgent et non invenient me
کیونکہ وہ علم سے نفرت کر کے رب کا خوف ماننے کے لئے تیار نہیں تھے۔
eo quod exosam habuerint disciplinam et timorem Domini non susceperint
میرا مشورہ اُنہیں قبول نہیں تھا بلکہ وہ میری ہر سرزنش کو حقیر جانتے تھے۔
nec adquieverint consilio meo et detraxerint universae correptioni meae
چنانچہ اب وہ اپنے چال چلن کا پھل کھائیں، اپنے منصوبوں کی فصل کھا کھا کر سیر ہو جائیں۔
comedent igitur fructus viae suae suisque consiliis saturabuntur
کیونکہ صحیح راہ سے دُور ہونے کا عمل سادہ لوح کو مار ڈالتا ہے، اور احمقوں کی بےپروائی اُنہیں تباہ کرتی ہے۔
aversio parvulorum interficiet eos et prosperitas stultorum perdet illos
لیکن جو میری سنے وہ سکون سے بسے گا، ہول ناک مصیبت اُسے پریشان نہیں کرے گی۔“
qui autem me audierit absque terrore requiescet et abundantia perfruetur malorum timore sublato