Ecclesiastes 7

نام نیک از عطر گرانبها بهتر است و روز مرگ از روز تولّد.
اچھا نام خوشبودار تیل سے اور موت کا دن پیدائش کے دن سے بہتر ہے۔
رفتن به خانهٔ عزا بهتر از رفتن جشن به است. همه باید این را بدانیم که مرگ در انتظار ماست.
ضیافت کرنے والوں کے گھر میں جانے کی نسبت ماتم کرنے والوں کے گھر میں جانا بہتر ہے، کیونکہ ہر انسان کا انجام موت ہی ہے۔ جو زندہ ہیں وہ اِس بات پر خوب دھیان دیں۔
اندوه بهتر از خنده است، زیرا غم آینهٔ دل را صفا می‌دهد.
دُکھ ہنسی سے بہتر ہے، اُترا ہوا چہرہ دل کی بہتری کا باعث ہے۔
شخص دانا دربارهٔ مرگ می‌اندیشد، ولی مرد احمق در پی عیش و نوش است.
دانش مند کا دل ماتم کرنے والوں کے گھر میں ٹھہرتا جبکہ احمق کا دل عیش و عشرت کرنے والوں کے گھر میں ٹک جاتا ہے۔
شنیدن انتقاد از شخص دانا بهتر از شنیدن تعریف از احمقان است.
احمقوں کے گیت سننے کی نسبت دانش مند کی جھڑکیوں پر دھیان دینا بہتر ہے۔
خندهٔ احمقان مانند صدای تَرَق‌تَرَق خار در آتشِ زیر دیگ بی‌معنی است.
احمق کے قہقہے دیگچی تلے چٹخنے والے کانٹوں کی آگ کی مانند ہیں۔ یہ بھی باطل ہی ہے۔
ظلم مرد حکیم را احمق می‌گرداند و رشوه دل را فاسد می‌سازد.
ناروا نفع دانش مند کو احمق بنا دیتا، رشوت دل کو بگاڑ دیتی ہے۔
انتهای کار از شروع آن بهتر است و صبر و شکیبایی از غرور نیکوتر می‌باشد.
کسی معاملے کا انجام اُس کی ابتدا سے بہتر ہے، صبر کرنا مغرور ہونے سے بہتر ہے۔
زود خشمگین نشوید، زیرا کسی‌که زود خشمگین می‌شود احمق است.
غصہ کرنے میں جلدی نہ کر، کیونکہ غصہ احمقوں کی گود میں ہی آرام کرتا ہے۔
هیچ‌گاه نپرسید: «چرا دوران گذشته بهتر از حالا بود؟» زیرا این‌گونه سؤال عاقلانه نیست.
یہ نہ پوچھ کہ آج کی نسبت پرانا زمانہ بہتر کیوں تھا، کیونکہ یہ حکمت کی بات نہیں۔
حکمت زیادتر از ارث ارزش دارد و هرکسی در این دنیا باید از حکمت برخودار باشد.
اگر حکمت کے علاوہ میراث میں ملکیت بھی مل جائے تو یہ اچھی بات ہے، یہ اُن کے لئے سودمند ہے جو سورج دیکھتے ہیں۔
حکمت و ثروت پناهگاهی برای انسان هستند، ولی برتری حکمت این است که به انسان زندگی می‌بخشد.
کیونکہ حکمت پیسوں کی طرح پناہ دیتی ہے، لیکن حکمت کا خاص فائدہ یہ ہے کہ وہ اپنے مالک کی جان بچائے رکھتی ہے۔
کارهای خدا را ببینید، چه کسی می‌تواند آنچه را که او کج ساخته است راست نماید؟
اللہ کے کام کا ملاحظہ کر۔ جو کچھ اُس نے پیچ دار بنایا کون اُسے سلجھا سکتا ہے؟
در وقت خوشبختی خوش باشید و هنگام سختی به یاد آورید که خوبی و بدی از جانب خداست و شما نمی‌دانید که بعد از آن چه اتّفاقی رخ خواهد داد.
خوشی کے دن خوش ہو، لیکن مصیبت کے دن خیال رکھ کہ اللہ نے یہ دن بھی بنایا اور وہ بھی اِس لئے کہ انسان اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ معلوم نہ کر سکے۔
در این زندگیِ بیهودهٔ خود بسیار چیزها دیده‌ام. یک شخص نیک در جوانی می‌میرد، امّا یک فرد شریر با وجود بدیهایش سالهای درازی زندگی می‌کند.
اپنی عبث زندگی کے دوران مَیں نے دو باتیں دیکھی ہیں۔ ایک طرف راست باز اپنی راست بازی کے باوجود تباہ ہو جاتا جبکہ دوسری طرف بےدین اپنی بےدینی کے باوجود عمر رسیدہ ہو جاتا ہے۔
پس بیش از حد نیک و با حکمت نباشید، مبادا خود را نابود کنید.
نہ حد سے زیادہ راست بازی دکھا، نہ حد سے زیادہ دانش مندی۔ اپنے آپ کو تباہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
بسیار شریر و احمق هم نباشید، مبادا مرگتان زود فرا رسد.
نہ حد سے زیادہ بےدینی، نہ حد سے زیادہ حماقت دکھا۔ مقررہ وقت سے پہلے مرنے کی کیا ضرورت ہے؟
در هیچ‌کدام آنها افراط نکنید. اگر خدا را تکریم نمایید در هر حال موفّق خواهید شد.
اچھا ہے کہ تُو یہ بات تھامے رکھے اور دوسری بھی نہ چھوڑے۔ جو اللہ کا خوف مانے وہ دونوں خطروں سے بچ نکلے گا۔
حکمت، انسان را از ده فرمانده که در یک شهر زندگی می‌کنند، تواناتر می‌سازد.
حکمت دانش مند کو شہر کے دس حکمرانوں سے زیادہ طاقت ور بنا دیتی ہے۔
در دنیا هیچ‌کسی نیست که کاملاً نیک‌کردار باشد و گناه نکند.
دنیا میں کوئی بھی انسان اِتنا راست باز نہیں کہ ہمیشہ اچھا کام کرے اور کبھی گناہ نہ کرے۔
همهٔ حرفهایی را که می‌شنوی به دل نگیر، حتّی وقتی می‌شنوی که خدمتکارت به تو ناسزا می‌گوید.
لوگوں کی ہر بات پر دھیان نہ دے، ایسا نہ ہو کہ تُو نوکر کی لعنت بھی سن لے جو وہ تجھ پر کرتا ہے۔
خودتان می‌دانید که شما هم بارها به دیگران ناسزا گفته‌اید.
کیونکہ دل میں تُو جانتا ہے کہ تُو نے خود متعدد بار دوسروں پر لعنت بھیجی ہے۔
من با حکمت خود تمام اینها را آزمودم و سعی کردم که دانا باشم، امّا به جایی نرسیدم.
حکمت کے ذریعے مَیں نے اِن تمام باتوں کی جانچ پڑتال کی۔ مَیں بولا، ”مَیں دانش مند بننا چاہتا ہوں،“ لیکن حکمت مجھ سے دُور رہی۔
مفهوم زندگی را کسی نمی‌داند، زیرا خیلی عمیق و بالاتر از عقل ماست.
جو کچھ موجود ہے وہ دُور اور نہایت گہرا ہے۔ کون اُس کی تہہ تک پہنچ سکتا ہے؟
پس وقت خود را صرف مطالعه و تحقیق نمودم و تصمیم گرفتم که حکمت را بیاموزم تا جواب سؤالات خود را پیدا کنم و برایم ثابت شد که شرارت و حماقت کار مردم احمق و دیوانه است.
چنانچہ مَیں رُخ بدل کر پورے دھیان سے اِس کی تحقیق و تفتیش کرنے لگا کہ حکمت اور مختلف باتوں کے صحیح نتائج کیا ہیں۔ نیز، مَیں بےدینی کی حماقت اور بےہودگی کی دیوانگی معلوم کرنا چاہتا تھا۔
فهمیدم که زن حیله‌گر از مرگ تلخ‌تر است، عشق او همچون دام و تله و بازوانش مانند کمند است. کسی‌که خدا از او راضی باشد می‌تواند از دام او نجات یابد، امّا شخص گناهکار گرفتارش می‌شود.
مجھے معلوم ہوا کہ موت سے کہیں تلخ وہ عورت ہے جو پھندا ہے، جس کا دل جال اور ہاتھ زنجیریں ہیں۔ جو آدمی اللہ کو منظور ہو وہ بچ نکلے گا، لیکن گناہ گار اُس کے جال میں اُلجھ جائے گا۔
حکیم می‌گوید: وقتی به دنبال حقیقت بودم به تدریج پی بردم که پاسخی وجود ندارد. اما دریافتم که در میان هزار مرد می‌توان یک مرد محترم پیدا کرد ولی در میان هزار زن یک زن قابل احترام هم وجود ندارد.
واعظ فرماتا ہے، ”یہ سب کچھ مجھے معلوم ہوا جب مَیں نے مختلف باتیں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کیں تاکہ صحیح نتائج تک پہنچوں۔
حکیم می‌گوید: وقتی به دنبال حقیقت بودم به تدریج پی بردم که پاسخی وجود ندارد. اما دریافتم که در میان هزار مرد می‌توان یک مرد محترم پیدا کرد ولی در میان هزار زن یک زن قابل احترام هم وجود ندارد.
لیکن جسے مَیں ڈھونڈتا رہا وہ نہ ملا۔ ہزار افراد میں سے مجھے صرف ایک ہی دیانت دار مرد ملا، لیکن ایک بھی دیانت دار عورت نہیں ۔
پس به این نتیجه رسیدم که خدا انسان را نیک و درستکار آفرید، امّا او خود را به مسائل پیچیده گرفتار کرده است.
مجھے صرف اِتنا ہی معلوم ہوا کہ گو اللہ نے انسانوں کو دیانت دار بنایا، لیکن وہ کئی قسم کی چالاکیاں ڈھونڈ نکالتے ہیں۔“