ایک بار پھر پیلاطس نکل آیا اور یہودیوں سے بات کرنے لگا، ”دیکھو، مَیں اِسے تمہارے پاس باہر لا رہا ہوں تاکہ تم جان لو کہ مجھے اِسے مجرم ٹھہرانے کی کوئی وجہ نہیں ملی۔“
اُسے دیکھتے ہی راہنما امام اور اُن کے ملازم چیخنے لگے، ”اِسے مصلوب کریں، اِسے مصلوب کریں!“ پیلاطس نے اُن سے کہا، ”تم ہی اِسے لے جا کر مصلوب کرو۔ کیونکہ مجھے اِسے مجرم ٹھہرانے کی کوئی وجہ نہیں ملی۔“
عیسیٰ نے جواب دیا، ”آپ کو مجھ پر اختیار نہ ہوتا اگر وہ آپ کو اوپر سے نہ دیا گیا ہوتا۔ اِس وجہ سے اُس شخص سے زیادہ سنگین گناہ ہوا ہے جس نے مجھے دشمن کے حوالے کر دیا ہے۔“
اِس کے بعد پیلاطس نے اُسے آزاد کرنے کی کوشش کی۔ لیکن یہودی چیخ چیخ کر کہنے لگے، ”اگر آپ اِسے رِہا کریں تو آپ رومی شہنشاہ قیصر کے دوست ثابت نہیں ہوں گے۔ جو بھی بادشاہ ہونے کا دعویٰ کرے وہ شہنشاہ کی مخالفت کرتا ہے۔“
اِس طرح کی باتیں سن کر پیلاطس عیسیٰ کو باہر لے آیا۔ پھر وہ جج کی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اُس جگہ کا نام ”پچی کاری“ تھا۔ (اَرامی زبان میں وہ گبتا کہلاتی تھی۔)
لیکن وہ چلّاتے رہے، ”لے جائیں اِسے، لے جائیں! اِسے مصلوب کریں!“ پیلاطس نے سوال کیا، ”کیا مَیں تمہارے بادشاہ کو صلیب پر چڑھاؤں؟“ راہنما اماموں نے جواب دیا، ”سوائے شہنشاہ کے ہمارا کوئی بادشاہ نہیں ہے۔“
عیسیٰ کو صلیب پر چڑھانے کے بعد فوجیوں نے اُس کے کپڑے لے کر چار حصوں میں بانٹ لئے، ہر فوجی کے لئے ایک حصہ۔ لیکن چوغہ بےجوڑ تھا۔ وہ اوپر سے لے کر نیچے تک بُنا ہوا ایک ہی ٹکڑے کا تھا۔
اِس لئے فوجیوں نے کہا، ”آؤ، اِسے پھاڑ کر تقسیم نہ کریں بلکہ اِس پر قرعہ ڈالیں۔“ یوں کلامِ مُقدّس کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی، ”اُنہوں نے آپس میں میرے کپڑے بانٹ لئے اور میرے لباس پر قرعہ ڈالا۔“ فوجیوں نے یہی کچھ کیا۔
اِس کے بعد جب عیسیٰ نے جان لیا کہ میرا مشن تکمیل تک پہنچ چکا ہے تو اُس نے کہا، ”مجھے پیاس لگی ہے۔“ (اِس سے بھی کلامِ مُقدّس کی ایک پیش گوئی پوری ہوئی۔)
فسح کی تیاری کا دن تھا اور اگلے دن عید کا آغاز اور ایک خاص سبت تھا۔ اِس لئے یہودی نہیں چاہتے تھے کہ مصلوب ہوئی لاشیں اگلے دن تک صلیبوں پر لٹکی رہیں۔ چنانچہ اُنہوں نے پیلاطس سے گزارش کی کہ وہ اُن کی ٹانگیں تڑوا کر اُنہیں صلیبوں سے اُتارنے دے۔
(جس نے یہ دیکھا ہے اُس نے گواہی دی ہے اور اُس کی گواہی سچی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہ حقیقت بیان کر رہا ہے اور اُس کی گواہی کا مقصد یہ ہے کہ آپ بھی ایمان لائیں۔)
بعد میں ارمتیہ کے رہنے والے یوسف نے پیلاطس سے عیسیٰ کی لاش اُتارنے کی اجازت مانگی۔ (یوسف عیسیٰ کا خفیہ شاگرد تھا، کیونکہ وہ یہودیوں سے ڈرتا تھا۔) اِس کی اجازت ملنے پر وہ آیا اور لاش کو اُتار لیا۔
نیکدیمس بھی ساتھ تھا، وہ آدمی جو گزرے دنوں میں رات کے وقت عیسیٰ سے ملنے آیا تھا۔ نیکدیمس اپنے ساتھ مُر اور عود کی تقریباً 34 کلو گرام خوشبو لے کر آیا تھا۔