Job 4

Temanlı Elifaz şöyle yanıtladı:
یہ کچھ سن کر اِلی فز تیمانی نے جواب دیا،
“Biri sana bir şey söylemeye çalışsa gücenir misin? Kim konuşmadan durabilir?
”کیا تجھ سے بات کرنے کا کوئی فائدہ ہے؟ تُو تو یہ برداشت نہیں کر سکتا۔ لیکن دوسری طرف کون اپنے الفاظ روک سکتا ہے؟
Evet, pek çoklarına sen ders verdin, Zayıf elleri güçlendirdin,
ذرا سوچ لے، تُو نے خود بہتوں کو تربیت دی، کئی لوگوں کے تھکے ماندے ہاتھوں کو تقویت دی ہے۔
Tökezleyeni senin sözlerin ayakta tuttu, Titreyen dizleri sen pekiştirdin.
تیرے الفاظ نے ٹھوکر کھانے والے کو دوبارہ کھڑا کیا، ڈگمگاتے ہوئے گھٹنے تُو نے مضبوط کئے۔
Ama şimdi senin başına gelince gücüne gidiyor, Sana dokununca yılgınlığa düşüyorsun.
لیکن اب جب مصیبت تجھ پر آ گئی تو تُو اُسے برداشت نہیں کر سکتا، اب جب خود اُس کی زد میں آ گیا تو تیرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں۔
Senin güvendiğin Tanrı’dan korkun değil mi, Umudun kusursuz yaşamında değil mi?
کیا تیرا اعتماد اِس پر منحصر نہیں ہے کہ تُو اللہ کا خوف مانے، تیری اُمید اِس پر نہیں کہ تُو بےالزام راہوں پر چلے؟
“Düşün biraz: Hangi suçsuz yok oldu, Nerede doğrular yıkıma uğradı?
سوچ لے، کیا کبھی کوئی بےگناہ ہلاک ہوا ہے؟ ہرگز نہیں! جو سیدھی راہ پر چلتے ہیں وہ کبھی رُوئے زمین پر سے مٹ نہیں گئے۔
Benim gördüğüm kadarıyla, fesat sürenler, Kötülük tohumu ekenler ektiklerini biçiyor.
جہاں تک مَیں نے دیکھا، جو ناانصافی کا ہل چلائے اور نقصان کا بیج بوئے وہ اِس کی فصل کاٹتا ہے۔
Tanrı’nın soluğuyla yok oluyor, Öfkesinin rüzgarıyla tükeniyorlar.
ایسے لوگ اللہ کی ایک پھونک سے تباہ، اُس کے قہر کے ایک جھونکے سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔
Aslanın kükremesi, homurtusu kesildi, Dişleri kırıldı genç aslanların.
شیرببر کی دہاڑیں خاموش ہو گئیں، جوان شیر کے دانت جھڑ گئے ہیں۔
Aslan av bulamadığı için yok oluyor, Dişi aslanın yavruları dağılıyor.
شکار نہ ملنے کی وجہ سے شیر ہلاک ہو جاتا اور شیرنی کے بچے پراگندہ ہو جاتے ہیں۔
“Bir söz gizlice erişti bana, Fısıltısı kulağıma ulaştı.
ایک بار ایک بات چوری چھپے میرے پاس پہنچی، اُس کے چند الفاظ میرے کان تک پہنچ گئے۔
Gece rüyaların doğurduğu düşünceler içinde, İnsanları ağır uyku bastığı zaman,
رات کو ایسی رویائیں پیش آئیں جو اُس وقت دیکھی جاتی ہیں جب انسان گہری نیند سویا ہوتا ہے۔ اِن سے مَیں پریشان کن خیالات میں مبتلا ہوا۔
Beni dehşet ve titreme aldı, Bütün kemiklerimi sarstı.
مجھ پر دہشت اور تھرتھراہٹ غالب آئی، میری تمام ہڈیاں لرز اُٹھیں۔
Önümden bir ruh geçti, Tüylerim ürperdi.
پھر میرے چہرے کے سامنے سے ہَوا کا جھونکا گزر گیا اور میرے تمام رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
Durdu, ama ne olduğunu seçemedim. Bir suret duruyordu gözümün önünde, Çıt çıkmazken bir ses duydum:
ایک ہستی میرے سامنے کھڑی ہوئی جسے مَیں پہچان نہ سکا، ایک شکل میری آنکھوں کے سامنے دکھائی دی۔ وہ خاموشی تھی، پھر ایک آواز نے فرمایا،
‘Tanrı karşısında insan doğru olabilir mi? Kendisini yaratanın karşısında temiz çıkabilir mi?
’کیا انسان اللہ کے حضور راست باز ٹھہر سکتا ہے، کیا انسان اپنے خالق کے سامنے پاک صاف ٹھہر سکتا ہے؟‘
Bakın, Tanrı kullarına güvenmez, Meleklerinde hata bulur da,
دیکھ، اللہ اپنے خادموں پر بھروسا نہیں کرتا، اپنے فرشتوں کو وہ احمق ٹھہراتا ہے۔
Çamur evlerde oturanlara, Mayası toprak olanlara, Güveden kolay ezilenlere mi güvenir?
تو پھر وہ انسان پر کیوں بھروسا رکھے جو مٹی کے گھر میں رہتا، ایسے مکان میں جس کی بنیاد خاک پر ہی رکھی گئی ہے۔ اُسے پتنگے کی طرح کچلا جاتا ہے۔
Ömürleri sabahtan akşama varmaz, Kimse farkına varmadan sonsuza dek yok olurlar.
صبح کو وہ زندہ ہے لیکن شام تک پاش پاش ہو جاتا، ابد تک ہلاک ہو جاتا ہے، اور کوئی بھی دھیان نہیں دیتا۔
İçlerindeki çadır ipleri çekilince, Bilgelikten yoksun olarak ölüp giderler.’
اُس کے خیمے کے رسّے ڈھیلے کرو تو وہ حکمت حاصل کئے بغیر انتقال کر جاتا ہے۔