Job 7

« أَلَيْسَ جِهَادٌ لِلإِنْسَانِ عَلَى الأَرْضِ، وَكَأَيَّامِ الأَجِيرِ أَيَّامُهُ؟
انسان دنیا میں سخت خدمت کرنے پر مجبور ہوتا ہے، جیتے جی وہ مزدور کی سی زندگی گزارتا ہے۔
كَمَا يَتَشَوَّقُ الْعَبْدُ إِلَى الظِّلِّ، وَكَمَا يَتَرَجَّى الأَجِيرُ أُجْرَتَهُ،
غلام کی طرح وہ شام کے سائے کا آرزومند ہوتا، مزدور کی طرح مزدوری کے انتظار میں رہتا ہے۔
هكَذَا تَعَيَّنَ لِي أَشْهُرُ سُوءٍ، وَلَيَالِي شَقَاءٍ قُسِمَتْ لِي.
مجھے بھی بےمعنی مہینے اور مصیبت کی راتیں نصیب ہوئی ہیں۔
إِذَا اضْطَجَعْتُ أَقُولُ: مَتَى أَقُومُ؟ اللَّيْلُ يَطُولُ، وَأَشْبَعُ قَلَقًا حَتَّى الصُّبْحِ.
جب بستر پر لیٹ جاتا تو سوچتا ہوں کہ کب اُٹھ سکتا ہوں؟ لیکن لگتا ہے کہ رات کبھی ختم نہیں ہو گی، اور مَیں فجر تک بےچینی سے کروٹیں بدلتا رہتا ہوں۔
لَبِسَ لَحْمِيَ الدُّودُ مَعَ مَدَرِ التُّرَابِ. جِلْدِي كَرِشَ وَسَاخََ.
میرے جسم کی ہر جگہ کیڑے اور کھرنڈ پھیل گئے ہیں، میری سکڑی ہوئی جِلد میں پیپ پڑ گئی ہے۔
أَيَّامِي أَسْرَعُ مِنَ الْوَشِيعَةِ، وَتَنْتَهِي بِغَيْرِ رَجَاءٍ.
میرے دن جولاہے کی نال سے کہیں زیادہ تیزی سے گزر گئے ہیں۔ وہ اپنے انجام تک پہنچ گئے ہیں، دھاگا ختم ہو گیا ہے۔
« اُذْكُرْ أَنَّ حَيَاتِي إِنَّمَا هِيَ رِيحٌ، وَعَيْنِي لاَ تَعُودُ تَرَى خَيْرًا.
اے اللہ، خیال رکھ کہ میری زندگی دم بھر کی ہی ہے! میری آنکھیں آئندہ کبھی خوش حالی نہیں دیکھیں گی۔
لاَ تَرَانِي عَيْنُ نَاظِرِي. عَيْنَاكَ عَلَيَّ وَلَسْتُ أَنَا.
جو مجھے اِس وقت دیکھے وہ آئندہ مجھے نہیں دیکھے گا۔ تُو میری طرف دیکھے گا، لیکن مَیں ہوں گا نہیں۔
السَّحَابُ يَضْمَحِلُّ وَيَزُولُ، هكَذَا الَّذِي يَنْزِلُ إِلَى الْهَاوِيَةِ لاَ يَصْعَدُ.
جس طرح بادل اوجھل ہو کر ختم ہو جاتا ہے اُسی طرح پاتال میں اُترنے والا واپس نہیں آتا۔
لاَ يَرْجعُ بَعْدُ إِلَى بَيْتِهِ، وَلاَ يَعْرِفُهُ مَكَانُهُ بَعْدُ.
وہ دوبارہ اپنے گھر واپس نہیں آئے گا، اور اُس کا مقام اُسے نہیں جانتا۔
أَنَا أَيْضًا لاَ أَمْنَعُ فَمِي. أَتَكَلَّمُ بِضِيقِ رُوحِي. أَشْكُو بِمَرَارَةِ نَفْسِي.
چنانچہ مَیں وہ کچھ روک نہیں سکتا جو میرے منہ سے نکلنا چاہتا ہے۔ مَیں رنجیدہ حالت میں بات کروں گا، اپنے دل کی تلخی کا اظہار کر کے آہ و زاری کروں گا۔
أَبَحْرٌ أَنَا أَمْ تِنِّينٌ، حَتَّى جَعَلْتَ عَلَيَّ حَارِسًا؟
اے اللہ، کیا مَیں سمندر یا سمندری اژدہا ہوں کہ تُو نے مجھے نظربند کر رکھا ہے؟
إِنْ قُلْتُ: فِرَاشِي يُعَزِّينِي، مَضْجَعِي يَنْزِعُ كُرْبَتِي،
جب مَیں کہتا ہوں، ’میرا بستر مجھے تسلی دے، سونے سے میرا غم ہلکا ہو جائے‘
تُرِيعُنِي بِالأَحْلاَمِ، وَتُرْهِبُنِي بِرُؤًى،
تو تُو مجھے ہول ناک خوابوں سے ہمت ہارنے دیتا، رویاؤں سے مجھے دہشت کھلاتا ہے۔
فَاخْتَارَتْ نَفْسِي الْخَنِقَ، الْمَوْتَ عَلَى عِظَامِي هذِهِ.
میری اِتنی بُری حالت ہو گئی ہے کہ سوچتا ہوں، کاش کوئی میرا گلا گھونٹ کر مجھے مار ڈالے، کاش مَیں زندہ نہ رہوں بلکہ دم چھوڑوں۔
قَدْ ذُبْتُ. لاَ إِلَى الأَبَدِ أَحْيَا. كُفَّ عَنِّي لأَنَّ أَيَّامِي نَفْخَةٌ.
مَیں نے زندگی کو رد کر دیا ہے، اب مَیں زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہوں گا۔ مجھے چھوڑ، کیونکہ میرے دن دم بھر کے ہی ہیں۔
مَا هُوَ الإِنْسَانُ حَتَّى تَعْتَبِرَهُ، وَحَتَّى تَضَعَ عَلَيْهِ قَلْبَكَ؟
انسان کیا ہے کہ تُو اُس کی اِتنی قدر کرے، اُس پر اِتنا دھیان دے؟
وَتَتَعَهَّدَهُ كُلَّ صَبَاحٍ، وَكُلَّ لَحْظَةٍ تَمْتَحِنُهُ؟
وہ اِتنا اہم تو نہیں ہے کہ تُو ہر صبح اُس کا معائنہ کرے، ہر لمحہ اُس کی جانچ پڑتال کرے۔
حَتَّى مَتَى لاَ تَلْتَفِتُ عَنِّي وَلاَ تُرْخِينِي رَيْثَمَا أَبْلَعُ رِيقِي؟
کیا تُو مجھے تکنے سے کبھی نہیں باز آئے گا؟ کیا تُو مجھے اِتنا سکون بھی نہیں دے گا کہ پل بھر کے لئے تھوک نگلوں؟
أَأَخْطَأْتُ؟ مَاذَا أَفْعَلُ لَكَ يَا رَقِيبَ النَّاسِ؟ لِمَاذَا جَعَلْتَنِي عَاثُورًا لِنَفْسِكَ حَتَّى أَكُونَ عَلَى نَفْسِي حِمْلاً؟
اے انسان کے پہرے دار، اگر مجھ سے غلطی ہوئی بھی تو اِس سے مَیں نے تیرا کیا نقصان کیا؟ تُو نے مجھے اپنے غضب کا نشانہ کیوں بنایا؟ مَیں تیرے لئے بوجھ کیوں بن گیا ہوں؟
وَلِمَاذَا لاَ تَغْفِرُ ذَنْبِي، وَلاَ تُزِيلُ إِثْمِي؟ لأَنِّي الآنَ أَضْطَجِعُ فِي التُّرَابِ، تَطْلُبُنِي فَلاَ أَكُونُ».
تُو میرا جرم معاف کیوں نہیں کرتا، میرا قصور درگزر کیوں نہیں کرتا؟ کیونکہ جلد ہی مَیں خاک ہو جاؤں گا۔ اگر تُو مجھے تلاش بھی کرے تو نہیں ملوں گا، کیونکہ مَیں ہوں گا نہیں۔“