Judges 9

ابیملک، پسر جدعون نزد خویشاوندان مادر خود به شکیم رفت و همه را جمع کرده به آنها گفت:
ایک دن یرُبعل یعنی جدعون کا بیٹا ابی مَلِک اپنے ماموؤں اور ماں کے باقی رشتے داروں سے ملنے کے لئے سِکم گیا۔ اُس نے اُن سے کہا،
«به اطّلاع تمام مردم شکیم برسانید و از آنها بپرسید: آیا می‌خواهید هفتاد پسر جدعون حاکم بر شما باشند یا یک نفر که من هستم؟ و به یاد داشته باشید که من از گوشت و خون شما می‌باشم.»
”سِکم شہر کے تمام باشندوں سے پوچھیں، کیا آپ اپنے آپ پر جدعون کے 70 بیٹوں کی حکومت زیادہ پسند کریں گے یا ایک ہی شخص کی؟ یاد رہے کہ مَیں آپ کا خونی رشتے دار ہوں!“
پس خویشاوندان مادرش، از طرف او حرفهایی را که زده بود، به مردم شکیم گفتند. و آنها با کمال خوشی پیروی از ابیملک را قبول کردند و گفتند: «او برادر ماست.»
ابی مَلِک کے ماموؤں نے سِکم کے تمام باشندوں کے سامنے یہ باتیں دہرائیں۔ سِکم کے لوگوں نے سوچا، ”ابی مَلِک ہمارا بھائی ہے“ اِس لئے وہ اُس کے پیچھے لگ گئے۔
آنها هفتاد سکّهٔ نقره، از پرستشگاه بعل عهد به او دادند. ابیملک با آن پول، مردان ولگرد و بیکار را اجیر کرد تا به او بپیوندند.
اُنہوں نے اُسے بعل بریت دیوتا کے مندر سے چاندی کے 70 سِکے بھی دے دیئے۔ اِن پیسوں سے ابی مَلِک نے اپنے ارد گرد آوارہ اور بدمعاش آدمیوں کا گروہ جمع کیا۔
بعد ابیملک به خانهٔ پدر خود به عفره رفت و هفتاد برادر خود را روی یک سنگ کشت. تنها کوچکترین آنها، که یوتام نام داشت، زنده ماند؛ زیرا او خود را پنهان کرده بود.
اُنہیں اپنے ساتھ لے کر وہ عُفرہ پہنچا جہاں باپ کا خاندان رہتا تھا۔ وہاں اُس نے اپنے تمام بھائیوں یعنی جدعون کے 70 بیٹوں کو ایک ہی پتھر پر قتل کر دیا۔ صرف یوتام جو جدعون کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا کہیں چھپ کر بچ نکلا۔
بعد همهٔ ساکنان شکیم و بیت ملو، کنار ستون درخت بلوط در شکیم، او را به پادشاهی برگزیدند.
اِس کے بعد سِکم اور بیت مِلّو کے تمام لوگ اُس بلوط کے سائے میں جمع ہوئے جو سِکم کے ستون کے پاس تھا۔ وہاں اُنہوں نے ابی مَلِک کو اپنا بادشاہ مقرر کیا۔
وقتی یوتام باخبر شد، به بالای کوه جَرزیم ایستاد و با صدای بلند به مردم گفت: «ای ساکنان شکیم، به من گوش بدهید تا خدا به شما گوش بدهد.
جب یوتام کو اِس کی اطلاع ملی تو وہ گرزیم پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گیا اور اونچی آواز سے چلّایا، ”اے سِکم کے باشندو، سنیں میری بات! سنیں اگر آپ چاہتے ہیں کہ اللہ آپ کی بھی سنے۔
یک روز درختان تصمیم گرفتند که پادشاهی برای خود انتخاب کنند. آنها اول پیش درخت زیتون رفتند و گفتند: 'بیا پادشاه ما باش.'
ایک دن درختوں نے فیصلہ کیا کہ ہم پر کوئی بادشاہ ہونا چاہئے۔ وہ اُسے چننے اور مسح کرنے کے لئے نکلے۔ پہلے اُنہوں نے زیتون کے درخت سے بات کی، ’ہمارے بادشاہ بن جائیں!‘
امّا درخت زیتون به آنها گفت: 'آیا می‌خواهید که من از روغن خود، که به وسیلهٔ آن خدایان و اشخاص را احترام می‌گذارند، صرف نظر کنم و بروم حاکم درختان دیگر باشم؟'
لیکن زیتون کے درخت نے جواب دیا، ’کیا مَیں اپنا تیل پیدا کرنے سے باز آؤں جس کی اللہ اور انسان اِتنی قدر کرتے ہیں تاکہ درختوں پر حکومت کروں؟ ہرگز نہیں!‘
بعد درختان به درخت انجیر گفتند: 'بیا پادشاه ما شو.'
اِس کے بعد درختوں نے انجیر کے درخت سے بات کی، ’آئیں، ہمارے بادشاہ بن جائیں!‘
درخت انجیر جواب داد: 'من نمی‌خواهم که شیرینی و میوهٔ خوب خود را ترک کنم و بروم و بر درختان دیگر پادشاهی کنم.'
لیکن انجیر کے درخت نے جواب دیا، ’کیا مَیں اپنا میٹھا اور اچھا پھل لانے سے باز آؤں تاکہ درختوں پر حکومت کروں؟ ہرگز نہیں!‘
سپس پیش تاک انگور رفتند و گفتند: 'بیا پادشاه ما شو.'
پھر درختوں نے انگور کی بیل سے بات کی، ’آئیں، ہمارے بادشاہ بن جائیں!‘
تاک گفت: 'آیا باید از شراب خود که برای خدایان و انسان خوشی می‌آورد صرف‌نظر کنم و حاکم درختان دیگر شوم؟'
لیکن انگور کی بیل نے جواب دیا، ’کیا مَیں اپنا رس پیدا کرنے سے باز آؤں جس سے اللہ اور انسان خوش ہو جاتے ہیں تاکہ درختوں پر حکومت کروں؟ ہرگز نہیں!‘
بالاخره پیش بوته خار رفتند و گفتند: 'بیا و پادشاه ما باش.'
آخرکار درخت کانٹےدار جھاڑی کے پاس آئے اور کہا، ’آئیں اور ہمارے بادشاہ بن جائیں!‘
بوتهٔ خار جواب داد: 'اگر به راستی می‌خواهید که من پادشاه شما شوم، پس بیایید در سایهٔ من پناه ببرید، وگرنه آتشی از من خواهد برخاست که حتّی تمام سروهای آزاد لبنان را خواهد سوزانید.'
کانٹےدار جھاڑی نے جواب دیا، ’اگر تم واقعی مجھے مسح کر کے اپنا بادشاہ بنانا چاہتے ہو تو آؤ اور میرے سائے میں پناہ لو۔ اگر تم ایسا نہیں کرنا چاہتے تو جھاڑی سے آگ نکل کر لبنان کے دیودار کے درختوں کو بھسم کر دے‘۔“
«اکنون خوب فکر کنید که آیا انتخاب ابیملک به عنوان پادشاه، کار درستی است؟ آیا نسبت به جدعون و خاندانش احسان نموده‌اید و کاری که لایق او باشد، به عمل آورده‌اید؟
یوتام نے بات جاری رکھ کر کہا، ”اب مجھے بتائیں، کیا آپ نے وفاداری اور سچائی کا اظہار کیا جب آپ نے ابی مَلِک کو اپنا بادشاہ بنا لیا؟ کیا آپ نے جدعون اور اُس کے خاندان کے ساتھ اچھا سلوک کیا؟ کیا آپ نے اُس پر شکرگزاری کا وہ اظہار کیا جس کے لائق وہ تھا؟
پدر من برای شما و به‌خاطر شما جنگ کرد. زندگی خود را به خطر انداخت و شما را از دست مدیانیان نجات داد.
میرے باپ نے آپ کی خاطر جنگ کی۔ آپ کو مِدیانیوں سے بچانے کے لئے اُس نے اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔
امّا شما امروز برضد خانوادهٔ پدرم برخاسته‌اید و هفتاد پسر او را روی یک سنگ کُشتید و ابیملک را که پسر کنیز اوست، فقط به‌خاطر اینکه یکی از اقوام شماست به عنوان پادشاه خود انتخاب کردید.
لیکن آج آپ جدعون کے گھرانے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ آپ نے اُس کے 70 بیٹوں کو ایک ہی پتھر پر ذبح کر کے اُس کی لونڈی کے بیٹے ابی مَلِک کو سِکم کا بادشاہ بنا لیا ہے، اور یہ صرف اِس لئے کہ وہ آپ کا رشتے دار ہے۔
اگر شما یقین دارید که از روی راستی و صداقت این کار را کرده‌اید و احترام جدعون را بجا آورده‌اید، من نیز آرزو می‌کنم که شما و ابیملک با هم خوش باشید.
اب سنیں! اگر آپ نے جدعون اور اُس کے خاندان کے ساتھ وفاداری اور سچائی کا اظہار کیا ہے تو پھر اللہ کرے کہ ابی مَلِک آپ کے لئے خوشی کا باعث ہو اور آپ اُس کے لئے۔
وگرنه، آتشی از ابیملک برخیزد که همهٔ ساکنان شکیم و بیت ملُو را بسوزاند و تمام مردم شکیم و بیت ملو و نیز خود ابیملک را از بین ببرد.»
لیکن اگر ایسا نہیں تھا تو اللہ کرے کہ ابی مَلِک سے آگ نکل کر آپ سب کو بھسم کر دے جو سِکم اور بیت مِلّو میں رہتے ہیں! اور آگ آپ سے نکل کر ابی مَلِک کو بھی بھسم کر دے!“
بعد یوتام از آنجا گریخت و از ترس برادر خود، ابیملك، به بَئیر فرار کرد.
یہ کہہ کر یوتام نے بھاگ کر بیر میں پناہ لی، کیونکہ وہ اپنے بھائی ابی مَلِک سے ڈرتا تھا۔
ابیملک مدّت سه سال بر اسرائیل حکومت کرد.
ابی مَلِک کی اسرائیل پر حکومت تین سال تک رہی۔
آنگاه خداوند روح شرارت بین ابیملک و مردم شکیم ایجاد کرد و مردم شکیم برضد ابیملک شورش نمودند.
لیکن پھر اللہ نے ایک بُری روح بھیج دی جس نے ابی مَلِک اور سِکم کے باشندوں میں نااتفاقی پیدا کر دی۔ نتیجے میں سِکم کے لوگوں نے بغاوت کی۔
پس از این حادثه، ابیملک و ساکنان شکیم که در قتل هفتاد پسر جدعون با او همدست بودند، به سزای کارهای خود رسیدند.
یوں اللہ نے اُسے اِس کی سزا دی کہ اُس نے اپنے بھائیوں یعنی جدعون کے 70 بیٹوں کو قتل کیا تھا۔ سِکم کے باشندوں کو بھی سزا ملی، کیونکہ اُنہوں نے اِس میں ابی مَلِک کی مدد کی تھی۔
مردم شکیم برای حمله بر ابیملك، در امتداد جاده‌ای که به بالای کوه می‌رفت، کمین کردند و هرکسی را که از آنجا می‌گذشت، غارت می‌کردند. کسی به ابیملک خبر داد.
اُس وقت سِکم کے لوگ ارد گرد کی چوٹیوں پر چڑھ کر ابی مَلِک کی تاک میں بیٹھ گئے۔ جو بھی وہاں سے گزرا اُسے اُنہوں نے لُوٹ لیا۔ اِس بات کی خبر ابی مَلِک تک پہنچ گئی۔
جَعل پسر عابد، با خویشاوندان خود به شکیم آمد و در آنجا، در بین مردم شهرت و اعتبار زیادی پیدا کرد.
اُن دنوں میں ایک آدمی اپنے بھائیوں کے ساتھ سِکم آیا جس کا نام جعل بن عبد تھا۔ سِکم کے لوگوں سے اُس کا اچھا خاصا تعلق بن گیا، اور وہ اُس پر اعتبار کرنے لگے۔
یک روز آنها بیرون رفتند و از تاکستانی انگور چیدند و جشن گرفتند. سپس به پرستشگاه خدای خود رفتند و در آنجا خوردند و نوشیدند و ابیملک را مسخره کردند.
انگور کی فصل پک گئی تھی۔ لوگ شہر سے نکلے اور اپنے باغوں میں انگور توڑ کر اُن سے رس نکالنے لگے۔ پھر اُنہوں نے اپنے دیوتا کے مندر میں جشن منایا۔ جب وہ خوب کھا پی رہے تھے تو ابی مَلِک پر لعنت کرنے لگے۔
جَعل از مردم پرسید: «ابیملک کیست؟ چرا ما مردم شکیم باید او را خدمت کنیم؟ آیا او پسر جدعون و نام دستیارش زَبول نیست؟ ما باید به جدّ خود حامور وفادار باشیم.
جعل بن عبد نے کہا، ”سِکم کا ابی مَلِک کے ساتھ کیا واسطہ کہ ہم اُس کے تابع رہیں؟ وہ تو صرف یرُبعل کا بیٹا ہے، جس کا نمائندہ زبول ہے۔ اُس کی خدمت مت کرنا بلکہ سِکم کے بانی حمور کے لوگوں کی! ہم ابی مَلِک کی خدمت کیوں کریں؟
ای کاش این مردم زیر دست من می‌بودند تا من ابیملک را از بین می‌بردم. آنگاه به ابیملک می‌گفتم: تمام لشکرت را جمع کن و به جنگ ما بیا.»
کاش شہر کا انتظام میرے ہاتھ میں ہوتا! پھر مَیں ابی مَلِک کو جلد ہی نکال دیتا۔ مَیں اُسے چیلنج دیتا کہ آؤ، اپنے فوجیوں کو جمع کر کے ہم سے لڑو!“
امّا وقتی زَبول حاکم شهر، سخنان جعل پسر عابد را شنید، بسیار خشمگین شد.
جعل بن عبد کی بات سن کر سِکم کا سردار زبول بڑے غصے میں آ گیا۔
او پیامی به ابیملک در ارومه فرستاده گفت: «جعل پسر عابد و خویشاوندان او به شکیم آمده‌اند و مردم را برضد تو می‌شورانند.
اپنے قاصدوں کی معرفت اُس نے ابی مَلِک کو چپکے سے اطلاع دی، ”جعل بن عبد اپنے بھائیوں کے ساتھ سِکم آ گیا ہے جہاں وہ پورے شہر کو آپ کے خلاف کھڑے ہو جانے کے لئے اُکسا رہا ہے۔
پس هنگام شب با همراهانت بروید و پنهان شوید.
اب ایسا کریں کہ رات کے وقت اپنے فوجیوں سمیت اِدھر آئیں اور کھیتوں میں تاک میں رہیں۔
صبح روز بعد، وقت طلوع آفتاب بروید و به شهر حمله کنید. وقتی‌که او و مردانش برای مقابله آمدند، آن وقت هر معامله‌ای که می‌خواهی با آنها بکن.»
صبح سویرے جب سورج طلوع ہو گا تو شہر پر حملہ کریں۔ جب جعل اپنے آدمیوں کے ساتھ آپ کے خلاف لڑنے آئے گا تو اُس کے ساتھ وہ کچھ کریں جو آپ مناسب سمجھتے ہیں۔“
پس ابیملک و همهٔ کسانی‌که با او بودند، شبانگاه رفتند و به چهار دسته تقسیم شده، در کمین نشستند.
یہ سن کر ابی مَلِک رات کے وقت اپنے فوجیوں سمیت روانہ ہوا۔ اُس نے اُنہیں چار گروہوں میں تقسیم کیا جو سِکم کو گھیر کر تاک میں بیٹھ گئے۔
وقتی صبح شد، جعل بیرون رفت و نزد دروازهٔ شهر ایستاد. ابیملک با همراهان خود از کمینگاه بیرون آمد.
صبح کے وقت جب جعل گھر سے نکل کر شہر کے دروازے میں کھڑا ہوا تو ابی مَلِک اور اُس کے فوجی اپنی چھپنے کی جگہوں سے نکل آئے۔
چون جعل آنها را دید، به زبول گفت: «آن مردم را می‌بینی که از کوه پایین می‌آیند!» زبول به او گفت: «تو سایهٔ کوه را مردم خیال کردی.»
اُنہیں دیکھ کر جعل نے زبول سے کہا، ”دیکھو، لوگ پہاڑوں کی چوٹیوں سے اُتر رہے ہیں!“ زبول نے جواب دیا، ”نہیں، نہیں، جو آپ کو آدمی لگ رہے ہیں وہ صرف پہاڑوں کے سائے ہیں۔“
جعل باز گفت: «ببین مردم به طرف ما می‌آیند و یک گروه دیگر هم از راه بلوط مَعُونیم می‌آیند.»
لیکن جعل کو تسلی نہ ہوئی۔ وہ دوبارہ بول اُٹھا، ”دیکھو، لوگ دنیا کی ناف سے اُتر رہے ہیں۔ اور ایک اَور گروہ رمّالوں کے بلوط سے ہو کر آ رہا ہے۔“
آنگاه زبول رو به طرف او کرده پرسید: «کجاست آن حرفهای توخالی‌ای که می‌زدی؟ یادت می‌آید که می‌گفتی: ابیملک کیست که ما خدمت او را بکنیم؟ اینها کسانی هستند که تو به آنها ناسزا می‌گفتی. پس حالا برو و با آنها جنگ کن.»
پھر زبول نے اُس سے کہا، ”اب تیری بڑی بڑی باتیں کہاں رہیں؟ کیا تُو نے نہیں کہا تھا، ’ابی مَلِک کون ہے کہ ہم اُس کے تابع رہیں؟‘ اب یہ لوگ آ گئے ہیں جن کا مذاق تُو نے اُڑایا۔ جا، شہر سے نکل کر اُن سے لڑ!“
جعل پیشاپیش مردم شکیم برای جنگ با ابیملک رفت.
تب جعل سِکم کے مردوں کے ساتھ شہر سے نکلا اور ابی مَلِک سے لڑنے لگا۔
ابیملک او را شکست داد و او فرار کرد. بسیاری از مردم شکیم زخمی شدند و تا نزدیک دروازهٔ شهر، به هر طرف روی زمین افتادند.
لیکن وہ ہار گیا، اور ابی مَلِک نے شہر کے دروازے تک اُس کا تعاقب کیا۔ بھاگتے بھاگتے سِکم کے بہت سے افراد راستے میں گر کر ہلاک ہو گئے۔
ابیملک در ارومه ساکن شد و زبول جعل را با وابستگانش از شکیم بیرون راند تا دیگر در آنجا زندگی نکنند.
پھر ابی مَلِک ارُومہ چلا گیا جبکہ زبول نے پیچھے رہ کر جعل اور اُس کے بھائیوں کو شہر سے نکال دیا۔
روز دیگر مردم شکیم به صحرا رفتند و ابیملک باخبر شد.
اگلے دن سِکم کے لوگ شہر سے نکل کر میدان میں آنا چاہتے تھے۔ جب ابی مَلِک کو یہ خبر ملی
او مردان خود را جمع کرد و به سه دسته تقسیم کرد و در صحرا کمین کردند. وقتی مردم را دیدند که از شهر بیرون می‌آیند، از کمینگاه خود خارج شدند و همه را به قتل رساندند.
تو اُس نے اپنی فوج کو تین گروہوں میں تقسیم کیا۔ یہ گروہ دوبارہ سِکم کو گھیر کر گھات میں بیٹھ گئے۔ جب لوگ شہر سے نکلے تو ابی مَلِک اپنے گروہ کے ساتھ چھپنے کی جگہ سے نکل آیا اور شہر کے دروازے میں کھڑا ہو گیا۔ باقی دو گروہ میدان میں موجود افراد پر ٹوٹ پڑے اور سب کو ہلاک کر دیا۔
ابیملک و همراهانش با شتاب رفتند و در جلوی دروازهٔ شهر ایستادند تا نگذارند که مردم به شهر داخل شوند. در عین حال دو دستهٔ دیگر آنها، به کسانی‌که در صحرا بودند حمله کردند و همه را کشتند.
تو اُس نے اپنی فوج کو تین گروہوں میں تقسیم کیا۔ یہ گروہ دوبارہ سِکم کو گھیر کر گھات میں بیٹھ گئے۔ جب لوگ شہر سے نکلے تو ابی مَلِک اپنے گروہ کے ساتھ چھپنے کی جگہ سے نکل آیا اور شہر کے دروازے میں کھڑا ہو گیا۔ باقی دو گروہ میدان میں موجود افراد پر ٹوٹ پڑے اور سب کو ہلاک کر دیا۔
ابیملک تمام آن روز جنگ کرد تا اینکه شهر را به تصرّف خود درآورد. همهٔ کسانی را که در شهر بودند، از بین بردند. شهر را ویران کردند و در آن نمک پاشیدند.
پھر ابی مَلِک نے شہر پر حملہ کیا۔ لوگ پورا دن لڑتے رہے، لیکن آخرکار ابی مَلِک نے شہر پر قبضہ کر کے تمام باشندوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ اُس نے شہر کو تباہ کیا اور کھنڈرات پر نمک بکھیر کر اُس کی حتمی تباہی ظاہر کر دی۔
وقتی مردمی که در نزدیک بُرج شهر بودند، از واقعه باخبر شدند، به قلعهٔ پرستشگاه خدای عهد پناه بردند.
جب سِکم کے بُرج کے رہنے والوں کو یہ اطلاع ملی تو وہ ایل بریت دیوتا کے مندر کے تہہ خانے میں چھپ گئے۔
وقتی ابیملک اطّلاع یافت که ساکنان بُرج شکیم در یک‌‌جا جمع شده‌اند،
جب ابی مَلِک کو پتا چلا
با همراهان خود بر بالای کوه صَلمُون رفت. تبری را به دست گرفته، شاخهٔ درختی را برید و آن را بر شانهٔ خود گذاشت. آنگاه به همراهان خود گفت: «کاری که من کردم شما هم فوراً بکنید!»
تو وہ اپنے فوجیوں سمیت ضلمون پہاڑ پر چڑھ گیا۔ وہاں اُس نے کلہاڑی سے شاخ کاٹ کر اپنے کندھوں پر رکھ لی اور اپنے فوجیوں کو حکم دیا، ”جلدی کرو! سب ایسا ہی کرو۔“
پس هرکدام یک شاخهٔ درخت را بریده، به دنبال ابیملک رفتند. شاخه‌ها را بردند و در اطراف قلعه انباشته و آنها را آتش زدند. همهٔ مردم بُرج شکیم، که در حدود یک‌هزار مرد و زن بودند، هلاک شدند.
فوجیوں نے بھی شاخیں کاٹیں اور پھر ابی مَلِک کے پیچھے لگ کر مندر کے پاس واپس آئے۔ وہاں اُنہوں نے تمام لکڑی تہہ خانے کی چھت پر جمع کر کے اُسے جلا دیا۔ یوں سِکم کے بُرج کے تقریباً 1,000 مرد و خواتین سب بھسم ہو گئے۔
بعد ابیملک به شهر تاباص رفت. در آنجا اردو زد و آن را تصرّف کرد.
وہاں سے ابی مَلِک تیبض کے خلاف بڑھ گیا۔ اُس نے شہر کا محاصرہ کر کے اُس پر قبضہ کر لیا۔
امّا در بین شهر یک بُرج بسیار مستحکم وجود داشت. پس همهٔ مردم، زن و مرد و رهبران به داخل آن بُرج رفتند و دروازه‌ها را بستند. سپس چند نفر برای دیده‌بانی به پشت بام بُرج رفتند.
لیکن شہر کے بیچ میں ایک مضبوط بُرج تھا۔ تمام مرد و خواتین اُس میں فرار ہوئے اور بُرج کے دروازوں پر کنڈی لگا کر چھت پر چڑھ گئے۔
ابیملک برای حمله به طرف بُرج رفت. وقتی به دروازهٔ بُرج نزدیک شد تا آن را به آتش بزند،
ابی مَلِک لڑتے لڑتے بُرج کے دروازے کے قریب پہنچ گیا۔ وہ اُسے جلانے کی کوشش کرنے لگا
یکی از زنها سنگ آسیایی گرفته بر سر ابیملک انداخت و کاسهٔ سرش را شکست.
تو ایک عورت نے چکّی کا اوپر کا پاٹ اُس کے سر پر پھینک دیا، اور وہ پھٹ گیا۔
ابیملک به جوان سلاحدار خود گفت: «شمشیرت را بِکش و مرا بکُش تا مبادا بگویند: یک زن او را کُشت.» پس آن جوان شمشیر خود را به شکم او فرو کرد و او را کشت.
جلدی سے ابی مَلِک نے اپنے سلاح بردار کو بُلایا۔ اُس نے کہا، ”اپنی تلوار کھینچ کر مجھے مار دو! ورنہ لوگ کہیں گے کہ ایک عورت نے مجھے مار ڈالا۔“ چنانچہ نوجوان نے اپنی تلوار اُس کے بدن میں سے گزار دی اور وہ مر گیا۔
چون مردم اسرائیل دیدند که ابیملک مرده است، همه به خانه‌های خود برگشتند.
جب فوجیوں نے دیکھا کہ ابی مَلِک مر گیا ہے تو وہ اپنے اپنے گھر چلے گئے۔
به این ترتیب خدا، ابیملک را به‌خاطر گناهی که در مقابل پدر خود کرد و هفتاد پسر او را کشت، به سزای کارهایش رساند.
یوں اللہ نے ابی مَلِک کو اُس بدی کا بدلہ دیا جو اُس نے اپنے 70 بھائیوں کو قتل کر کے اپنے باپ کے خلاف کی تھی۔
خدا همچنین بلای شرارت مردم شکیم را بر سر خودشان آورد. به این ترتیب نفرین یوتام، پسر جدعون به حقیقت پیوست.
اور اللہ نے سِکم کے باشندوں کو بھی اُن کی شریر حرکتوں کی مناسب سزا دی۔ یوتام بن یرُبعل کی لعنت پوری ہوئی۔