پولس کو بُلایا گیا تو ترطلس نے فیلکس کو یہودیوں کا الزام پیش کیا، ”آپ کے زیرِ حکومت ہمیں بڑا امن و امان حاصل ہے، اور آپ کی دُور اندیشی سے اِس ملک میں بہت ترقی ہوئی ہے۔
لیکن مَیں نہیں چاہتا کہ آپ میری باتوں سے حد سے زیادہ تھک جائیں۔ عرض صرف یہ ہے کہ آپ ہم پر مہربانی کا اظہار کر کے ایک لمحے کے لئے ہمارے معاملے پر توجہ دیں۔
گورنر نے اشارہ کیا کہ پولس اپنی بات پیش کرے۔ اُس نے جواب میں کہا، ”مَیں جانتا ہوں کہ آپ کئی سالوں سے اِس قوم کے جج مقرر ہیں، اِس لئے خوشی سے آپ کو اپنا دفاع پیش کرتا ہوں۔
وہاں نہ مَیں نے بیت المُقدّس میں کسی سے بحث مباحثہ کیا، نہ شہر کے کسی عبادت خانے میں یا کسی اَور جگہ ہل چل مچائی۔ اِن لوگوں نے بھی میری کوئی ایسی حرکت نہیں دیکھی۔
بےشک مَیں تسلیم کرتا ہوں کہ مَیں اُسی راہ پر چلتا ہوں جسے یہ بدعت قرار دیتے ہیں۔ لیکن مَیں اپنے باپ دادا کے خدا کی پرستش کرتا ہوں۔ جو کچھ بھی شریعت اور نبیوں کے صحیفوں میں لکھا ہے اُسے مَیں مانتا ہوں۔
صرف یہ ایک جرم ہو سکتا ہے کہ مَیں نے اُس وقت اُن کے حضور پکار کر یہ بات بیان کی، ’آج مجھ پر اِس لئے الزام لگایا جا رہا ہے کہ مَیں ایمان رکھتا ہوں کہ مُردے جی اُٹھیں گے‘۔“
اُس نے پولس پر مقرر افسر کو حکم دیا کہ وہ اُس کی پہرہ داری تو کرے لیکن اُسے کچھ سہولیات بھی دے اور اُس کے عزیزوں کو اُس سے ملنے اور اُس کی خدمت کرنے سے نہ روکے۔
لیکن جب راست بازی، ضبطِ نفس اور آنے والی عدالت کے مضامین چھڑ گئے تو فیلکس نے گھبرا کر اُس کی بات کاٹی، ”فی الحال کافی ہے۔ اب اجازت ہے، جب میرے پاس وقت ہو گا مَیں آپ کو بُلا لوں گا۔“