Song of Solomon 2

مَیں میدانِ شارون کا پھول اور وادیوں کی سوسن ہوں۔
من گل نرگس شارون و سوسن دشتها هستم. محبوب
لڑکیوں کے درمیان میری محبوبہ کانٹےدار پودوں میں سوسن کی مانند ہے۔
محبوبهٔ من در بین دختران، مانند سوسنی است در میان خارها. محبوبه
جوان آدمیوں میں میرا محبوب جنگل میں سیب کے درخت کی مانند ہے۔ مَیں اُس کے سائے میں بیٹھنے کی کتنی آرزومند ہوں، اُس کا پھل مجھے کتنا میٹھا لگتا ہے۔
محبوب من در میان جوانان، همچون درخت سیبی است در بین درختان جنگل. خوش و سرمست در زیر سایه‌اش می‌نشینم و میوه‌اش در دهانم شیرین و گواراست.
وہ مجھے مَے کدے میں لایا ہے، میرے اوپر اُس کا جھنڈا محبت ہے۔
او مرا به تالار ضیافت خود آورد و پرچم محبّتش را بالای سرم برافراشت.
کشمش کی ٹکیوں سے مجھے تر و تازہ کرو، سیبوں سے مجھے تقویت دو، کیونکہ مَیں عشق کے مارے بیمار ہو گئی ہوں۔
مرا با کشمش نیرو ببخشید و جانم را با سیب تازه کنید! زیرا من بیمار عشق او هستم.
اُس کا بایاں بازو میرے سر کے نیچے ہوتا اور دہنا بازو مجھے گلے لگاتا ہے۔
دست چپ او زیر سرم است و با دست راست خود مرا در آغوش می‌کشد.
اے یروشلم کی بیٹیو، غزالوں اور کھلے میدان کی ہرنیوں کی قَسم کھاؤ کہ جب تک محبت خود نہ چاہے تم اُسے نہ جگاؤ گی، نہ بیدار کرو گی۔
ای دختران اورشلیم، شما را به غزالها و آهوان صحرا قسم می‌دهم که عشق ما را برهم مزنید! محبوبه
سنو، میرا محبوب آ رہا ہے۔ وہ دیکھو، وہ پہاڑوں پر پھلانگتا اور ٹیلوں پر سے اُچھلتا کودتا آ رہا ہے۔
من صدای محبوبم را می‌شنوم که جست‌و‌خیز‌کنان از روی کوهها و تپّه‌ها به سوی من می‌آید.
میرا محبوب غزال یا جوان ہرن کی مانند ہے۔ اب وہ ہمارے گھر کی دیوار کے سامنے رُک کر کھڑکیوں میں سے جھانک رہا، جنگلے میں سے تک رہا ہے۔
محبوب من همچون غزال و بچّه آهوست. او در پشت دیوار ایستاده و از پنجره نگاه می‌کند.
وہ مجھ سے کہتا ہے، ”اے میری خوب صورت محبوبہ، اُٹھ کر میرے ساتھ چل!
محبوبم به من می‌گوید: محبوب «ای دلبر من، ای زیبای من، برخیز و بیا.
دیکھ، سردیوں کا موسم گزر گیا ہے، بارشیں بھی ختم ہو گئی ہیں۔
زیرا زمستان گذشته است و موسم باران به پایان رسیده است.
زمین سے پھول پھوٹ نکلے ہیں اور گیت کا وقت آ گیا ہے، کبوتروں کی غوں غوں ہمارے ملک میں سنائی دیتی ہے۔
گُلها از زمین روییده‌اند و زمان نغمه‌سرایی رسیده است. آواز فاخته در مزرعهٔ ما گوشها را نوازش می‌دهد.
انجیر کے درختوں پر پہلی فصل کا پھل پک رہا ہے، اور انگور کی بیلوں کے پھول خوشبو پھیلا رہے ہیں۔ چنانچہ آ میری حسین محبوبہ، اُٹھ کر آ جا!
درختان انجیر میوه به بار آورده، و رایحهٔ شکوفه‌های تاکها، هوا را عطرآگین ساخته است. ای عزیز من، ای زیبای من، برخیز و با من بیا!»
اے میری کبوتری، چٹان کی دراڑوں میں چھپی نہ رہ، پہاڑی پتھروں میں پوشیدہ نہ رہ بلکہ مجھے اپنی شکل دکھا، مجھے اپنی آواز سننے دے، کیونکہ تیری آواز شیریں، تیری شکل خوب صورت ہے۔“
ای کبوتر من که در شکاف صخره‌ها و در پشت سنگها پنهان شده‌ای، بگذار که روی تو را ببینم و صدایت را بشنوم، زیرا صدایت سحرانگیز و روی تو قشنگ است.
ہمارے لئے لومڑیوں کو پکڑ لو، اُن چھوٹی لومڑیوں کو جو انگور کے باغوں کو تباہ کرتی ہیں۔ کیونکہ ہماری بیلوں سے پھول پھوٹ نکلے ہیں۔
روباه‌ها را بگیرید، روباه‌های کوچک را بگیرید که تاکستانها را خراب می‌کنند، زیرا تاکستانهای ما شکوفه کرده‌اند. محبوبه
میرا محبوب میرا ہی ہے، اور مَیں اُسی کی ہوں، اُسی کی جو سوسنوں میں چرتا ہے۔
محبوب من از آن من است و من از آن او. او گلّه خود را در بین سوسن‌ها می‌چراند.
اے میرے محبوب، اِس سے پہلے کہ شام کی ہَوا چلے اور سائے لمبے ہو کر فرار ہو جائیں غزال یا جوان ہرن کی طرح سنگلاخ پہاڑوں کا رُخ کر!
ای محبوب من، پیش از آنکه نسیم سحرگاهی بوزد و سایه‌ها بگریزند، پیش من بیا. مانند غزال و بچّه آهو بر کوههای «باتر» به سوی من بیا.