II Kings 14

در سال دوم سلطنت یهوآش پسر یهوآخاز، پادشاه اسرائیل، امصیا پسر یوآش پادشاه یهودا شد.
اَمصیاہ بن یوآس اسرائیل کے بادشاہ یہوآس بن یہوآخز کے دوسرے سال میں یہوداہ کا بادشاہ بنا۔
او در سن بیست و پنج سالگی به سلطنت رسید و مدّت بیست و نُه سال در اورشلیم پادشاهی کرد. نام مادرش یهوعدان و از اهالی اورشلیم بود.
اُس وقت وہ 25 سال کا تھا۔ وہ یروشلم میں رہ کر 29 سال حکومت کرتا رہا۔ اُس کی ماں یہوعدان یروشلم کی رہنے والی تھی۔
او مانند جدش داوود، آنچه را در نظر خداوند نیک بود، بجا می‌آورد.
جو کچھ اَمصیاہ نے کیا وہ رب کو پسند تھا، اگرچہ وہ اُتنی وفاداری سے رب کی پیروی نہیں کرتا تھا جتنی اُس کے باپ داؤد نے کی تھی۔ ہر کام میں وہ اپنے باپ یوآس کے نمونے پر چلا،
او پرستشگاههای بالای تپّه‌ها را ویران نکرد و مردم هنوز در آنجا قربانی می‌کردند و بُخور می‌سوزاندند.
لیکن اُس نے بھی اونچی جگہوں کے مندروں کو دُور نہ کیا۔ عام لوگ اب تک وہاں قربانیاں چڑھاتے اور بخور جلاتے رہے۔
پس از اینکه قدرت را کاملاً در دست گرفت، خادمینی که پدرش را کشته بودند، به قتل رساند.
جوں ہی اَمصیاہ کے پاؤں مضبوطی سے جم گئے اُس نے اُن افسروں کو سزائے موت دی جنہوں نے باپ کو قتل کر دیا تھا۔
امّا او فرزندان قاتلین پدرش را نکشت و با آنها مطابق کتاب قوانین موسی رفتار کرد که خداوند می‌فرماید: «والدین نباید به‌خاطر جنایت فرزندانشان کشته شوند و فرزندان نباید به‌خاطر جنایت والدینشان کشته شوند، هرکس باید به‌خاطر جنایتی که خود مرتکب شده است، کشته شود.»
لیکن اُن کے بیٹوں کو اُس نے زندہ رہنے دیا اور یوں موسوی شریعت کے تابع رہا جس میں رب فرماتا ہے، ”والدین کو اُن کے بچوں کے جرائم کے سبب سے سزائے موت نہ دی جائے، نہ بچوں کو اُن کے والدین کے جرائم کے سبب سے۔ اگر کسی کو سزائے موت دینی ہو تو اُس گناہ کے سبب سے جو اُس نے خود کیا ہے۔“
امصیا ده هزار نفر سرباز اَدومی را در درّهٔ نمک کشت و شهر سالع را در نبرد گرفت و آن را یُقتئیل نام نهاد که تا به امروز به همان نام خوانده می‌شود.
اَمصیاہ نے ادومیوں کو نمک کی وادی میں شکست دی۔ اُس وقت اُن کے 10,000 فوجی اُس سے لڑنے آئے تھے۔ جنگ کے دوران اُس نے سلع شہر پر قبضہ کر لیا اور اُس کا نام یُقتئیل رکھا۔ یہ نام آج تک رائج ہے۔
آنگاه امصیا قاصدانی نزد یهوآش، پادشاه اسرائیل فرستاد و او را به جنگ دعوت کرد.
اِس فتح کے بعد اَمصیاہ نے اسرائیل کے بادشاہ یہوآس بن یہوآخز کو پیغام بھیجا، ”آئیں، ہم ایک دوسرے کا مقابلہ کریں!“
امّا یهوآش پادشاه اسرائیل به او چنین پاسخ داد: «روزی بوتهٔ خاری در کوههای لبنان برای درخت سرو پیام فرستاد که دخترت را به پسر من به همسری بده. حیوان وحشی لبنان که از آنجا می‌گذشت خار را لگدمال کرد.
لیکن اسرائیل کے بادشاہ یہوآس نے جواب دیا، ”لبنان میں ایک کانٹےدار جھاڑی نے دیودار کے ایک درخت سے بات کی، ’میرے بیٹے کے ساتھ اپنی بیٹی کا رشتہ باندھو۔‘ لیکن اُسی وقت لبنان کے جنگلی جانوروں نے اُس کے اوپر سے گزر کر اُسے پاؤں تلے کچل ڈالا۔
اکنون ای امصیا تو اَدومی‌ها را شکست داده‌ای و مغرور شده‌ای، به شهرت خود راضی باش و در خانه‌ات بمان. چرا برای خودت و قومت مشکل ایجاد می‌کنی؟»
ملکِ ادوم پر فتح پانے کے سبب سے آپ کا دل مغرور ہو گیا ہے۔ لیکن میرا مشورہ ہے کہ آپ اپنے گھر میں رہ کر فتح میں حاصل ہوئی شہرت کا مزہ لینے پر اکتفا کریں۔ آپ ایسی مصیبت کو کیوں دعوت دیتے ہیں جو آپ اور یہوداہ کی تباہی کا باعث بن جائے؟“
امّا امصیا گوش نکرد، پس یهوآش، پادشاه با سربازان خود خارج شد و علیه او در بیت شمس در یهودا به نبرد پرداخت.
لیکن اَمصیاہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھا، اِس لئے یہوآس اپنی فوج لے کر یہوداہ پر چڑھ آیا۔ بیت شمس کے پاس اُس کا یہوداہ کے بادشاہ کے ساتھ مقابلہ ہوا۔
یهودا از اسرائیل شکست خورد و همهٔ سربازان به خانه‌های خود گریختند.
اسرائیل کی فوج نے یہوداہ کی فوج کو شکست دی، اور ہر ایک اپنے اپنے گھر بھاگ گیا۔
یهوآش امصیا را دستگیر کرد و بعد با سپاه خود به اورشلیم رفت. دیوار اورشلیم را از دروازهٔ افرایم تا دروازهٔ زاویه که یکصد و هشتاد متر طول داشت ویران کرد.
اسرائیل کے بادشاہ یہوآس نے یہوداہ کے بادشاہ اَمصیاہ بن یوآس بن اخزیاہ کو وہیں بیت شمس میں گرفتار کر لیا۔ پھر وہ یروشلم گیا اور شہر کی فصیل افرائیم نامی دروازے سے کونے کے دروازے تک گرا دی۔ اِس حصے کی لمبائی تقریباً 600 فٹ تھی۔
تمام نقره، طلا و ظروفی را که در معبد بزرگ و خزانهٔ کاخ شاهی بود، گرفت و با گروگانها به سامره بازگشت.
جتنا بھی سونا، چاندی اور قیمتی سامان رب کے گھر اور شاہی محل کے خزانوں میں تھا اُسے اُس نے پورے کا پورا چھین لیا۔ لُوٹا ہوا مال اور بعض یرغمالوں کو لے کر وہ سامریہ واپس چلا گیا۔
بقیّهٔ کارهای یهوآش، شجاعت او و چگونه با امصیا، پادشاه یهودا جنگید، در کتاب تاریخ پادشاهان اسرائیل نوشته شده‌ است.
باقی جو کچھ یہوآس کی حکومت کے دوران ہوا، جو کچھ اُس نے کیا اور جو کامیابیاں اُسے حاصل ہوئیں وہ ’شاہانِ اسرائیل کی تاریخ‘ کی کتاب میں درج ہیں۔ اُس میں اُس کی یہوداہ کے بادشاہ اَمصیاہ کے ساتھ جنگ کا ذکر بھی ہے۔
یهوآش درگذشت و در سامره با پادشاهان اسرائیل به خاک سپرده شد. سپس پسر او یربعام جانشین او شد.
جب یہوآس مر کر اپنے باپ دادا سے جا ملا تو اُسے سامریہ میں اسرائیل کے بادشاہوں کی قبر میں دفنایا گیا۔ پھر اُس کا بیٹا یرُبعام دوم تخت نشین ہوا۔
امصیا پادشاه، پانزده سال پس از مرگ یهوآش پسر یهوآخاز زندگی کرد.
اسرائیل کے بادشاہ یہوآس بن یہوآخز کی موت کے بعد یہوداہ کا بادشاہ اَمصیاہ بن یوآس مزید 15 سال جیتا رہا۔
بقیّهٔ وقایع دوران سلطنت امصیا، در کتاب تاریخ پادشاهان یهودا نوشته شده‌اند.
باقی جو کچھ اَمصیاہ کی حکومت کے دوران ہوا وہ ’شاہانِ یہوداہ کی تاریخ‘ کی کتاب میں درج ہے۔
در اورشلیم علیه او توطئه کردند و او به شهر لاکیش گریخت. امّا دشمنانش او را دنبال کردند و در آنجا او را کشتند.
ایک دن لوگ یروشلم میں اُس کے خلاف سازش کرنے لگے۔ آخرکار اُس نے فرار ہو کر لکیس میں پناہ لی، لیکن سازش کرنے والوں نے اپنے لوگوں کو اُس کے پیچھے بھیجا، اور وہ وہاں اُسے قتل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
جسد او بر روی اسبی به اورشلیم حمل شد و در آنجا در گور سلطنتی در شهر داوود به‌ خاک سپرده شد.
اُس کی لاش گھوڑے پر اُٹھا کر یروشلم لائی گئی جہاں اُسے شہر کے اُس حصے میں جو ’داؤد کا شہر‘ کہلاتا ہے خاندانی قبر میں دفنایا گیا۔
مردم یهودا پسر شانزده سالهٔ او، عَزَریا را به جای پدرش به تخت نشاندند.
یہوداہ کے تمام لوگوں نے اَمصیاہ کے بیٹے عُزیّاہ کو باپ کے تخت پر بٹھا دیا۔ اُس کی عمر 16 سال تھی
عزریا پس از وفات پدر خود، اِیلَت را دوباره آباد کرد و به یهودا بازگرداند.
جب اُس کا باپ مر کر اپنے باپ دادا سے جا ملا۔ بادشاہ بننے کے بعد عُزیّاہ نے ایلات شہر پر قبضہ کر کے اُسے دوبارہ یہوداہ کا حصہ بنا لیا۔ اُس نے شہر میں بہت تعمیری کام کروایا۔
در سال پانزدهم سلطنت امصیا پادشاه یهودا، یربعام پسر یهوآش در سامره پادشاه اسرائیل شد و مدّت چهل و یک سال سلطنت کرد.
یہوداہ کے بادشاہ اَمصیاہ بن یوآس کے 15ویں سال میں یرُبعام بن یہوآس اسرائیل کا بادشاہ بنا۔ اُس کی حکومت کا دورانیہ 41 سال تھا، اور اُس کا دار الحکومت سامریہ رہا۔
او آنچه را که در نظر خداوند پلید بود، انجام داد و از همهٔ گناهان یربعام، پسر نباط که مردم اسرائیل را به گناه کشاند، دوری نجست.
اُس کا چال چلن رب کو ناپسند تھا۔ وہ اُن گناہوں سے باز نہ آیا جو کرنے پر نباط کے بیٹے یرُبعام اوّل نے اسرائیل کو اُکسایا تھا۔
او تمام سرزمینهایی را که به اسرائیل تعلّق داشت، دوباره تسخیر کرد، از گذرگاه حَمات در شمال تا دریای مرده در جنوب. این بود آنچه که خداوند خدای اسرائیل به وسیلهٔ خدمتگزار خود یونس نبی، پسر اَمِتای، اهل جت حافر، وعده داده بود.
یرُبعام دوم لبو حمات سے لے کر بحیرۂ مُردار تک اُن تمام علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر سکا جو پہلے اسرائیل کے تھے۔ یوں وہ وعدہ پورا ہوا جو رب اسرائیل کے خدا نے اپنے خادم جات حِفر کے رہنے والے نبی یونس بن امِتّی کی معرفت کیا تھا۔
خداوند مصیبت عظیمی در میان بنی‌اسرائیل دید و کسی نبود که به ایشان کمک کند.
کیونکہ رب نے اسرائیل کی نہایت بُری حالت پر دھیان دیا تھا۔ اُسے معلوم تھا کہ چھوٹے بڑے سب ہلاک ہونے والے ہیں اور کہ اُنہیں چھڑانے والا کوئی نہیں ہے۔
امّا نابودی کامل و همیشگی اسرائیل، هدف خداوند نبود، پس او به وسیلهٔ یربعام دوم ایشان را نجات داد.
رب نے کبھی نہیں کہا تھا کہ مَیں اسرائیل قوم کا نام و نشان مٹا دوں گا، اِس لئے اُس نے اُنہیں یرُبعام بن یہوآس کے وسیلے سے نجات دلائی۔
همهٔ کارهای یربعام دوم، نبردهای شجاعانه او و چگونگی بازگرداندن دمشق و حمات به اسرائیل در کتاب تاریخ پادشاهان اسرائیل ثبت شده‌ است.
باقی جو کچھ یرُبعام دوم کی حکومت کے دوران ہوا، جو کچھ اُس نے کیا اور جو جنگی کامیابیاں اُسے حاصل ہوئیں اُن کا ذکر ’شاہانِ اسرائیل کی تاریخ‘ کی کتاب میں ہوا ہے۔ اُس میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اُس نے کس طرح دمشق اور حمات پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
یربعام درگذشت و در گورستان سلطنتی به‌ خاک سپرده شد و پسرش زَکریا به جای او به تخت پادشاهی نشست.
جب یرُبعام مر کر اپنے باپ دادا سے جا ملا تو اُسے سامریہ میں بادشاہوں کی قبر میں دفنایا گیا۔ پھر اُس کا بیٹا زکریاہ تخت نشین ہوا۔