رب نے موسیٰ سے کہا، ”اِس جگہ سے روانہ ہو جا۔ اُن لوگوں کو لے کر جن کو تُو مصر سے نکال لایا ہے اُس ملک کو جا جس کا وعدہ مَیں نے ابراہیم، اسحاق اور یعقوب سے کیا ہے۔ اُن ہی سے مَیں نے قَسم کھا کر کہا تھا، ’مَیں یہ ملک تمہاری اولاد کو دوں گا۔‘
اُٹھ، اُس ملک کو جا جہاں دودھ اور شہد کی کثرت ہے۔ لیکن مَیں ساتھ نہیں جاؤں گا۔ تم اِتنے ہٹ دھرم ہو کہ اگر مَیں ساتھ جاؤں تو خطرہ ہے کہ تمہیں وہاں پہنچنے سے پہلے ہی برباد کر دوں۔“
کیونکہ رب نے موسیٰ سے کہا تھا، ”اسرائیلیوں کو بتا کہ تم ہٹ دھرم ہو۔ اگر مَیں ایک لمحہ بھی تمہارے ساتھ چلوں تو خطرہ ہے کہ مَیں تمہیں تباہ کر دوں۔ اب اپنے زیورات اُتار ڈالو۔ پھر مَیں فیصلہ کروں گا کہ تمہارے ساتھ کیا کِیا جائے۔“
اُس وقت موسیٰ نے خیمہ لے کر اُسے کچھ فاصلے پر خیمہ گاہ کے باہر لگا دیا۔ اُس نے اُس کا نام ’ملاقات کا خیمہ‘ رکھا۔ جو بھی رب کی مرضی دریافت کرنا چاہتا وہ خیمہ گاہ سے نکل کر وہاں جاتا۔
جب بھی موسیٰ خیمہ گاہ سے نکل کر وہاں جاتا تو تمام لوگ اپنے خیموں کے دروازوں پر کھڑے ہو کر موسیٰ کے پیچھے دیکھنے لگتے۔ اُس کے ملاقات کے خیمے میں اوجھل ہونے تک وہ اُسے دیکھتے رہتے۔
رب موسیٰ سے رُوبرُو باتیں کرتا تھا، ایسے شخص کی طرح جو اپنے دوست سے باتیں کرتا ہے۔ اِس کے بعد موسیٰ نکل کر خیمہ گاہ کو واپس چلا جاتا۔ لیکن اُس کا جوان مددگار یشوع بن نون خیمے کو نہیں چھوڑتا تھا۔
موسیٰ نے رب سے کہا، ”دیکھ، تُو مجھ سے کہتا آیا ہے کہ اِس قوم کو کنعان لے چل۔ لیکن تُو میرے ساتھ کس کو بھیجے گا؟ تُو نے اب تک یہ بات مجھے نہیں بتائی حالانکہ تُو نے کہا ہے، ’مَیں تجھے بنام جانتا ہوں، تجھے میرا کرم حاصل ہوا ہے۔‘
اگر مجھے واقعی تیرا کرم حاصل ہے تو مجھے اپنے راستے دکھا تاکہ مَیں تجھے جان لوں اور تیرا کرم مجھے حاصل ہوتا رہے۔ اِس بات کا خیال رکھ کہ یہ قوم تیری ہی اُمّت ہے۔“
اگر تُو ہمارے ساتھ نہ جائے تو کس طرح پتا چلے گا کہ مجھے اور تیری قوم کو تیرا کرم حاصل ہوا ہے؟ ہم صرف اِسی وجہ سے دنیا کی دیگر قوموں سے الگ اور ممتاز ہیں۔“
رب نے جواب دیا، ”مَیں اپنی پوری بھلائی تیرے سامنے سے گزرنے دوں گا اور تیرے سامنے ہی اپنے نام رب کا اعلان کروں گا۔ مَیں جس پر مہربان ہونا چاہوں اُس پر مہربان ہوتا ہوں، اور جس پر رحم کرنا چاہوں اُس پر رحم کرتا ہوں۔