راست باز ہلاک ہو جاتا ہے، لیکن کسی کو پروا نہیں۔ دیانت دار دنیا سے چھین لئے جاتے ہیں، لیکن کوئی دھیان نہیں دیتا۔ کوئی نہیں سمجھتا کہ راست باز کو بُرائی سے بچنے کے لئے چھین لیا جاتا ہے۔
وادیوں کے رگڑے ہوئے پتھر تیرا حصہ اور تیرا مقدّر بن گئے ہیں۔ کیونکہ اُن ہی کو تُو نے مَے اور غلہ کی نذریں پیش کیں۔ اِس کے مدِ نظر مَیں اپنا فیصلہ کیوں بدلوں؟
اپنے گھر کے دروازے اور چوکھٹ کے پیچھے تُو نے اپنی بُت پرستی کے نشان لگائے۔ مجھے ترک کر کے تُو اپنا بستر بچھا کر اُس پر لیٹ گئی۔ تُو نے اُسے اِتنا بڑا بنا دیا کہ دوسرے بھی اُس پر لیٹ سکیں۔ پھر تُو نے عصمت فروشی کے پیسے مقرر کئے۔ اُن کی صحبت تجھے کتنی پیاری تھی، اُن کی برہنگی سے تُو کتنا لطف اُٹھاتی تھی!
تجھے کس سے اِتنا خوف و ہراس تھا کہ تُو نے جھوٹ بول کر نہ مجھے یاد کیا، نہ پروا کی؟ ایسا ہی ہے نا، تُو اِس لئے میرا خوف نہیں مانتی کہ مَیں خاموش اور چھپا رہا۔
آ، مدد کے لئے آواز دے! دیکھتے ہیں کہ تیرے بُتوں کا مجموعہ تجھے بچا سکے گا کہ نہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہو گا بلکہ اُنہیں ہَوا اُٹھا لے جائے گی، ایک پھونک اُنہیں اُڑا دے گی۔ لیکن جو مجھ پر بھروسا رکھے وہ ملک کو میراث میں پائے گا، مُقدّس پہاڑ اُس کی موروثی ملکیت بنے گا۔“
کیونکہ جو عظیم اور سربلند ہے، جو ابد تک تخت نشین اور جس کا نام قدوس ہے وہ فرماتا ہے، ”مَیں نہ صرف بلندیوں کے مقدِس میں بلکہ شکستہ حال اور فروتن روح کے ساتھ بھی سکونت کرتا ہوں تاکہ فروتن کی روح اور شکستہ حال کے دل کو نئی زندگی بخشوں۔
کیونکہ مَیں ہمیشہ تک اُن کے ساتھ نہیں جھگڑوں گا، ابد تک ناراض نہیں رہوں گا۔ ورنہ اُن کی روح میرے حضور نڈھال ہو جاتی، اُن لوگوں کی جان جنہیں مَیں نے خود خلق کیا۔
لیکن گو مَیں اُس کے چال چلن سے واقف ہوں مَیں اُسے پھر بھی شفا دوں گا، اُس کی راہنمائی کر کے اُسے دوبارہ تسلی دوں گا۔ اور اُس کے جتنے لوگ ماتم کر رہے ہیں