جلد ہی پتا چلا کہ دانیال دوسرے وزیروں اور صوبے داروں پر سبقت رکھتا تھا، کیونکہ وہ غیرمعمولی ذہانت کا مالک تھا۔ نتیجتاً بادشاہ نے اُسے پوری سلطنت پر مقرر کرنے کا ارادہ کیا۔
جب دیگر وزیروں اور صوبے داروں کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ دانیال پر الزام لگانے کا بہانہ ڈھونڈنے لگے۔ لیکن وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں اِتنا قابلِ اعتماد تھا کہ وہ ناکام رہے۔ کیونکہ نہ وہ رشوت خور تھا، نہ کسی کام میں سُست۔
آخرکار وہ آدمی آپس میں کہنے لگے، ”اِس طریقے سے ہمیں دانیال پر الزام لگانے کا موقع نہیں ملے گا۔ لیکن ایک بات ہے جو الزام کا باعث بن سکتی ہے یعنی اُس کے خدا کی شریعت۔“
سلطنت کے تمام وزیر، گورنر، صوبے دار، مشیر اور منتظم آپس میں مشورہ کر کے متفق ہوئے ہیں کہ اگلے 30 دن کے دوران سب کو صرف بادشاہ سے دعا کرنی چاہئے۔ بادشاہ ایک فرمان صادر کریں کہ جو بھی کسی اَور معبود یا انسان سے التجا کرے اُسے شیروں کی ماند میں پھینکا جائے گا۔ دھیان دینا چاہئے کہ سب ہی اِس پر عمل کریں۔
اے بادشاہ، گزارش ہے کہ آپ یہ فرمان ضرور صادر کریں بلکہ لکھ کر اُس کی تصدیق بھی کریں تاکہ اُسے تبدیل نہ کیا جا سکے۔ تب وہ مادیوں اور فارسیوں کے قوانین کا حصہ بن کر منسوخ نہیں کیا جا سکے گا۔“
جب دانیال کو معلوم ہوا کہ فرمان صادر ہوا ہے تو وہ سیدھا اپنے گھر میں چلا گیا۔ چھت پر ایک کمرا تھا جس کی کھلی کھڑکیوں کا رُخ یروشلم کی طرف تھا۔ اِس کمرے میں دانیال روزانہ تین بار اپنے گھٹنے ٹیک کر دعا اور اپنے خدا کی ستائش کرتا تھا۔ اب بھی اُس نے یہ سلسلہ جاری رکھا۔
تب وہ بادشاہ کے پاس گئے اور اُسے شاہی فرمان کی یاد دلائی، ”کیا آپ نے فرمان صادر نہیں کیا تھا کہ اگلے 30 دن کے دوران سب کو صرف بادشاہ سے دعا کرنی ہے، اور جو کسی اَور معبود یا انسان سے التجا کرے اُسے شیروں کی ماند میں پھینکا جائے گا؟“ بادشاہ نے جواب دیا، ”جی، یہ فرمان قائم ہے بلکہ مادیوں اور فارسیوں کے قوانین کا حصہ ہے جو منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔“
اُنہوں نے کہا، ”اے بادشاہ، دانیال جو یہوداہ کے جلاوطنوں میں سے ہے نہ آپ کی پروا کرتا، نہ اُس فرمان کی جس کی آپ نے لکھ کر تصدیق کی۔ ابھی تک وہ روزانہ تین بار اپنے خدا سے دعا کرتا ہے۔“
لیکن آخرکار وہ آدمی گروہ کی صورت میں دوبارہ بادشاہ کے حضور آئے اور کہنے لگے، ”بادشاہ کو یاد رہے کہ مادیوں اور فارسیوں کے قوانین کے مطابق جو بھی فرمان بادشاہ صادر کرے اُسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔“
چنانچہ بادشاہ نے حکم دیا کہ دانیال کو پکڑ کر شیروں کی ماند میں پھینکا جائے۔ ایسا ہی ہوا۔ بادشاہ بولا، ”اے دانیال، جس خدا کی عبادت تم بلاناغہ کرتے آئے ہو وہ تمہیں بچائے۔“
اُس کے قریب پہنچ کر بادشاہ نے غمگین آواز سے پکارا، ”اے زندہ خدا کے بندے دانیال، کیا تمہارے خدا جس کی تم بلاناغہ عبادت کرتے رہے ہو تمہیں شیروں سے بچا سکا؟“
میرے خدا نے اپنے فرشتے کو بھیج دیا جس نے شیروں کے منہ کو بند کئے رکھا۔ اُنہوں نے مجھے کوئی بھی نقصان نہ پہنچایا، کیونکہ اللہ کے سامنے مَیں بےقصور ہوں۔ بادشاہ سلامت کے خلاف بھی مجھ سے جرم نہیں ہوا۔“
یہ سن کر بادشاہ آپے میں نہ سمایا۔ اُس نے دانیال کو ماند سے نکالنے کا حکم دیا۔ جب اُسے کھینچ کر نکالا گیا تو معلوم ہوا کہ اُسے کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا۔ یوں اُسے اللہ پر بھروسا رکھنے کا اجر ملا۔
لیکن جن آدمیوں نے دانیال پر الزام لگایا تھا اُن کا بُرا انجام ہوا۔ بادشاہ کے حکم پر اُنہیں اُن کے بال بچوں سمیت شیروں کی ماند میں پھینکا گیا۔ ماند کے فرش پر گرنے سے پہلے ہی شیر اُن پر جھپٹ پڑے اور اُنہیں پھاڑ کر اُن کی ہڈیوں کو چبا لیا۔
میرا فرمان سنو! لازم ہے کہ میری سلطنت کی ہر جگہ لوگ دانیال کے خدا کے سامنے تھرتھرائیں اور اُس کا خوف مانیں۔ کیونکہ وہ زندہ خدا اور ابد تک قائم ہے۔ نہ کبھی اُس کی بادشاہی تباہ، نہ اُس کی حکومت ختم ہو گی۔