اِلقانہ ہر سال اپنے خاندان سمیت سفر کر کے سَیلا کے مقدِس کے پاس جاتا تاکہ وہاں رب الافواج کے حضور قربانی گزرانے اور اُس کی پرستش کرے۔ اُن دنوں میں عیلی امام کے دو بیٹے حُفنی اور فینحاس سَیلا میں امام کی خدمت انجام دیتے تھے۔
حنّہ کو بھی گوشت ملتا، لیکن جہاں دوسروں کو ایک حصہ ملتا وہاں اُسے دو حصے ملتے تھے۔ کیونکہ اِلقانہ اُس سے بہت محبت رکھتا تھا، اگرچہ اب تک رب کی مرضی نہیں تھی کہ حنّہ کے بچے پیدا ہوں۔
سال بہ سال ایسا ہی ہوا کرتا تھا۔ جب بھی وہ رب کے مقدِس کے پاس جاتے تو فنِنّہ حنّہ کو اِتنا تنگ کرتی کہ وہ اُس کی باتیں سن سن کر رو پڑتی اور کھا پی نہ سکتی۔
اُس نے قَسم کھائی، ”اے رب الافواج، میری بُری حالت پر نظر ڈال کر مجھے یاد کر! اپنی خادمہ کو مت بھولنا بلکہ بیٹا عطا فرما! اگر تُو ایسا کرے تو مَیں اُسے تجھے واپس کر دوں گی۔ اے رب، اُس کی پوری زندگی تیرے لئے مخصوص ہو گی! اِس کا نشان یہ ہو گا کہ اُس کے بال کبھی نہیں کٹوائے جائیں گے۔“
تو دیکھا کہ حنّہ کے ہونٹ تو ہل رہے ہیں لیکن آواز سنائی نہیں دے رہی، کیونکہ حنّہ دل ہی دل میں دعا کر رہی تھی۔ لیکن عیلی کو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ نشے میں دُھت ہے،
حنّہ نے جواب دیا، ”میرے آقا، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ مَیں نے نہ مَے، نہ کوئی اَور نشہ آور چیز چکھی ہے۔ بات یہ ہے کہ مَیں بڑی رنجیدہ ہوں، اِس لئے رب کے حضور اپنے دل کی آہ و زاری اُنڈیل دی ہے۔
اگلے دن پورا خاندان صبح سویرے اُٹھا۔ اُنہوں نے مقدِس میں جا کر رب کی پرستش کی، پھر رامہ واپس چلے گئے جہاں اُن کا گھر تھا۔ اور رب نے حنّہ کو یاد کر کے اُس کی دعا سنی۔
لیکن حنّہ نہ گئی۔ اُس نے اپنے شوہر سے کہا، ”جب بچہ دودھ پینا چھوڑ دے گا تب ہی مَیں اُسے لے کر رب کے حضور پیش کروں گی۔ اُس وقت سے وہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔“
اِلقانہ نے جواب دیا، ”وہ کچھ کر جو تجھے مناسب لگے۔ بچے کا دودھ چھڑانے تک یہاں رہ۔ لیکن رب اپنا کلام قائم رکھے۔“ چنانچہ حنّہ بچے کے دودھ چھڑانے تک گھر میں رہی۔
جب سموایل نے دودھ پینا چھوڑ دیا تو حنّہ اُسے سَیلا میں رب کے مقدِس کے پاس لے گئی، گو بچہ ابھی چھوٹا تھا۔ قربانیوں کے لئے اُس کے پاس تین بَیل، میدے کے تقریباً 16 کلو گرام اور مَے کی مشک تھی۔