Romans 5

اب چونکہ ہمیں ایمان سے راست باز قرار دیا گیا ہے اِس لئے اللہ کے ساتھ ہماری صلح ہے۔ اِس صلح کا وسیلہ ہمارا خداوند عیسیٰ مسیح ہے۔
بنابراین چون از راه ایمان در حضور خدا نیک شمرده شده‌ایم، از صلح با خدا كه به وسیلهٔ خداوند ما عیسی مسیح برقرار گردید، بهره‌مند هستیم.
ہمارے ایمان لانے پر اُس نے ہمیں فضل کے اُس مقام تک پہنچایا جہاں ہم آج قائم ہیں۔ اور یوں ہم اِس اُمید پر فخر کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے جلال میں شریک ہوں گے۔
به وسیلهٔ ایمان به مسیح، ما وارد فیض الهی شده‌ایم، فیضی كه در آن پایداریم و نه تنها به امید شراكتی كه در جلال خدا داریم شادی می‌کنیم،
نہ صرف یہ بلکہ ہم اُس وقت بھی فخر کرتے ہیں جب ہم مصیبتوں میں پھنسے ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ مصیبت سے ثابت قدمی پیدا ہوتی ہے،
بلكه در زحمات خود نیز شاد هستیم. زیرا می‌دانیم كه زحمت، بردباری را ایجاد می‌کند
ثابت قدمی سے پختگی اور پختگی سے اُمید۔
و بردباری موجب می‌شود كه مورد قبول خدا شویم و این امر امید را می‌آفریند.
اور اُمید ہمیں شرمندہ ہونے نہیں دیتی، کیونکہ اللہ نے ہمیں روح القدس دے کر اُس کے وسیلے سے ہمارے دلوں میں اپنی محبت اُنڈیلی ہے۔
این امید هیچ‌وقت ما را مأیوس نمی‌‌سازد، زیرا محبّت خدا به وسیلهٔ روح‌القدس كه به ما عطا شد، قلبهای ما را فراگرفته است.
کیونکہ ہم ابھی کمزور ہی تھے تو مسیح نے ہم بےدینوں کی خاطر اپنی جان دے دی۔
زیرا در آن هنگام كه هنوز ما درمانده بودیم، مسیح در زمانی ‌كه خدا معیّن كرده بود در راه بی‌دینان جان سپرد.
مشکل سے ہی کوئی کسی راست باز کی خاطر اپنی جان دے گا۔ ہاں، ممکن ہے کہ کوئی کسی نیکو کار کے لئے اپنی جان دینے کی جرٲت کرے۔
به ندرت می‌توان كسی را یافت كه حاضر باشد حتّی برای یک شخص نیكو از جان خود بگذرد، اگرچه ممكن است گاهی كسی به‌خاطر یک دوست خیرخواه جرأت قبول مرگ را داشته باشد.
لیکن اللہ نے ہم سے اپنی محبت کا اظہار یوں کیا کہ مسیح نے اُس وقت ہماری خاطر اپنی جان دی جب ہم گناہ گار ہی تھے۔
امّا خدا محبّت خود را نسبت به ما کاملاً ثابت كرده است. زیرا در آن هنگام كه ما هنوز گناهكار بودیم، مسیح به‌خاطر ما مرد.
ہمیں مسیح کے خون سے راست باز ٹھہرایا گیا ہے۔ تو یہ بات کتنی یقینی ہے کہ ہم اُس کے وسیلے سے اللہ کے غضب سے بچیں گے۔
ما كه با ریختن خون او کاملاً نیک شمرده شدیم چقدر بیشتر به وسیلهٔ خود او از غضب خدا خواهیم رست!
ہم ابھی اللہ کے دشمن ہی تھے جب اُس کے فرزند کی موت کے وسیلے سے ہماری اُس کے ساتھ صلح ہو گئی۔ تو پھر یہ بات کتنی یقینی ہے کہ ہم اُس کی زندگی کے وسیلے سے نجات بھی پائیں گے۔
وقتی ما با خدا دشمن بودیم، او با مرگ پسر خویش دشمنی ما را به دوستی تبدیل كرد، پس حالا كه دوست او هستیم، چقدر بیشتر زندگانی مسیح باعث نجات ما خواهد شد!
نہ صرف یہ بلکہ اب ہم اللہ پر فخر کرتے ہیں اور یہ ہمارے خداوند عیسیٰ مسیح کے وسیلے سے ہے، جس نے ہماری صلح کرائی ہے۔
نه تنها این بلكه ما به وسیلهٔ خداوند ما عیسی مسیح كه ما را دوست خدا گردانیده در خدا شادی می‌کنیم.
جب آدم نے گناہ کیا تو اُس ایک ہی شخص سے گناہ دنیا میں آیا۔ اِس گناہ کے ساتھ ساتھ موت بھی آ کر سب آدمیوں میں پھیل گئی، کیونکہ سب نے گناہ کیا۔
گناه به وسیلهٔ یک انسان به جهان وارد شد و این گناه، مرگ را به همراه آورد. در نتیجه، چون همه گناه كردند مرگ همه را دربرگرفت.
شریعت کے انکشاف سے پہلے گناہ تو دنیا میں تھا، لیکن جہاں شریعت نہیں ہوتی وہاں گناہ کا حساب نہیں کیا جاتا۔
قبل از شریعت گناه در جهان وجود داشت؛ امّا چون شریعتی در بین نبود، گناه به حساب آدمیان گذاشته نمی‌شد.
تاہم آدم سے لے کر موسیٰ تک موت کی حکومت جاری رہی، اُن پر بھی جنہوں نے آدم کی سی حکم عدولی نہ کی۔ اب آدم آنے والے عیسیٰ مسیح کی طرف اشارہ تھا۔
با وجود این باز هم مرگ بر انسانهایی كه از زمان «آدم» تا زمان موسی زندگی می‌کردند، حاكم بود حتّی بر آنانی كه مانند «آدم»، از فرمان خدا سرپیچی نكرده بودند. آدم نمونهٔ آن كسی است، كه قرار بود بیاید.
لیکن اِن دونوں میں بڑا فرق ہے۔ جو نعمت اللہ مفت میں دیتا ہے وہ آدم کے گناہ سے مطابقت نہیں رکھتی۔ کیونکہ اِس ایک شخص آدم کی خلاف ورزی سے بہت سے لوگ موت کی زد میں آ گئے، لیکن اللہ کا فضل کہیں زیادہ موثر ہے، وہ مفت نعمت جو بہتوں کو اُس ایک شخص عیسیٰ مسیح میں ملی ہے۔
امّا این دو، مثل هم نیستند، زیرا بخشش الهی با گناهی كه به وسیلهٔ آدم به جهان وارد شد قابل مقایسه نیست. درست است كه بسیاری به‌خاطر گناه یک نفر مردند. امّا چقدر بیشتر فیض خدا و بخششی كه از فیض آدم دوم یعنی عیسی مسیح ناشی شده، به فراوانی در دسترس بسیاری گذاشته شده است.
ہاں، اللہ کی اِس نعمت اور آدم کے گناہ میں بہت فرق ہے۔ اُس ایک شخص آدم کے گناہ کے نتیجے میں ہمیں تو مجرم قرار دیا گیا، لیکن اللہ کی مفت نعمت کا اثر یہ ہے کہ ہمیں راست باز قرار دیا جاتا ہے، گو ہم سے بےشمار گناہ سرزد ہوئے ہیں۔
همچنین نمی‌توان آن بخشش خدا را با نتایج گناه یک نفر یعنی «آدم» مقایسه كرد، زیرا در نتیجهٔ آن نافرمانی، انسان محكوم شناخته شد، حال آنکه بخشش خدا پس از آن‌همه خطاها، موجب تبرئهٔ انسان گردید.
اِس ایک شخص آدم کے گناہ کے نتیجے میں موت سب پر حکومت کرنے لگی۔ لیکن اِس ایک شخص عیسیٰ مسیح کا کام کتنا زیادہ موثر تھا۔ جتنے بھی اللہ کا وافر فضل اور راست بازی کی نعمت پاتے ہیں وہ مسیح کے وسیلے سے ابدی زندگی میں حکومت کریں گے۔
به سبب نافرمانی آن یک نفر و به‌خاطر او مرگ بر سرنوشت بشر حاكم شد، امّا چقدر نتیجهٔ آنچه آن انسان دیگر یعنی عیسی مسیح انجام داد بزرگتر است! همهٔ کسانی‌که فیض فراوان خدا و بخشش رایگان نیكی مطلق او را دریافت کردند، به وسیلهٔ مسیح در زندگانی حكومت خواهند نمود.
چنانچہ جس طرح ایک ہی شخص کے گناہ کے باعث سب لوگ مجرم ٹھہرے اُسی طرح ایک ہی شخص کے راست عمل سے وہ دروازہ کھل گیا جس میں داخل ہو کر سب لوگ راست باز ٹھہر سکتے اور زندگی پا سکتے ہیں۔
پس همان‌طور كه یک گناه موجب محکومیّت همهٔ آدمیان شد، یک کار کاملاً نیک نیز، باعث تبرئه و حیات همه می‌باشد.
جس طرح ایک ہی شخص کی نافرمانی سے بہت سے لوگ گناہ گار بن گئے، اُسی طرح ایک ہی شخص کی فرماں برداری سے بہت سے لوگ راست باز بن جائیں گے۔
و چنانکه بسیاری در نتیجهٔ بی‌اطاعتی یک نفر، گناهكار گشتند، به همان ‌طریق، بسیاری هم در نتیجهٔ اطاعت یک نفر، کاملاً نیک محسوب خواهند شد.
شریعت اِس لئے درمیان میں آ گئی کہ خلاف ورزی بڑھ جائے۔ لیکن جہاں گناہ زیادہ ہوا وہاں اللہ کا فضل اِس سے بھی زیادہ ہو گیا۔
شریعت آمد تا گناهان را افزایش دهد، امّا جایی‌‌كه گناه افزایش یافت، فیض خدا بمراتب بیشتر گردید.
چنانچہ جس طرح گناہ موت کی صورت میں حکومت کرتا تھا اُسی طرح اب اللہ کا فضل ہمیں راست باز ٹھہرا کر حکومت کرتا ہے۔ یوں ہمیں اپنے خداوند عیسیٰ مسیح کی بدولت ابدی زندگی حاصل ہوتی ہے۔
پس همان‌طور كه گناه به وسیلهٔ مرگ، انسان را تحت فرمان خود در آورد، فیض خدا نیز به وسیلهٔ نیكی ‌مطلق فرمانروایی می‌کند و ما را به وسیلهٔ خداوند ما عیسی مسیح به حیات جاودان هدایت می‌کند.