گھڑسوار آگے بڑھ رہے، شعلہ زن تلواریں اور چمکتے نیزے نظر آ رہے ہیں۔ ہر طرف مقتول ہی مقتول، بےشمار لاشوں کے ڈھیر پڑے ہیں۔ اِتنی ہیں کہ لوگ ٹھوکر کھا کھا کر اُن پر سے گزرتے ہیں۔
رب الافواج فرماتا ہے، ”اے نینوہ بیٹی، اب مَیں تجھ سے نپٹ لیتا ہوں۔ مَیں تیرا لباس تیرے سر کے اوپر اُٹھاؤں گا کہ تیرا ننگاپن اقوام کو نظر آئے اور تیرا منہ دیگر ممالک کے سامنے کالا ہو جائے۔
تب سب تجھے دیکھ کر بھاگ جائیں گے۔ وہ کہیں گے، ’نینوہ تباہ ہو گئی ہے!‘ اب اُس پر افسوس کرنے والا کون رہا؟ اب مجھے کہاں سے لوگ ملیں گے جو تجھے تسلی دیں؟“
توبھی وہ قیدی بن کر جلاوطن ہوا۔ ہر گلی کے کونے میں اُس کے شیرخوار بچوں کو زمین پر پٹخ دیا گیا۔ اُس کے شرفا قرعہ اندازی کے ذریعے تقسیم ہوئے، اُس کے تمام بزرگ زنجیروں میں جکڑے گئے۔
تاہم آگ تجھے بھسم کرے گی، تلوار تجھے مار ڈالے گی، ہاں وہ تجھے ٹڈیوں کی طرح کھا جائے گی۔ بچنے کا کوئی امکان نہیں ہو گا، خواہ تُو ٹڈیوں کی طرح بےشمار کیوں نہ ہو جائے۔
تیرے درباری ٹڈیوں جیسے اور تیرے افسر ٹڈی دَلوں کی مانند ہیں جو سردیوں کے موسم میں دیواروں کے ساتھ چپک جاتی لیکن دھوپ نکلتے ہی اُڑ کر اوجھل ہو جاتی ہیں۔ کسی کو بھی پتا نہیں کہ وہ کہاں چلی گئی ہیں۔
اے اسور کے بادشاہ، تیرے چرواہے گہری نیند سو رہے، تیرے شرفا آرام کر رہے ہیں۔ تیری قوم پہاڑوں پر منتشر ہو گئی ہے، اور کوئی نہیں جو اُنہیں دوبارہ جمع کرے۔