یہ دیکھ کر مَیں نے اُس کی لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے یہ ٹکڑے اسرائیل کی میراث کی ہر جگہ بھیج دیئے تاکہ ہر ایک کو معلوم ہو جائے کہ ہمارے ملک میں کتنا گھنونا جرم سرزد ہوا ہے۔
ہم یہ فیصلہ بھی کریں کہ کون کون ہماری فوج کے لئے کھانے پینے کا بندوبست کرائے گا۔ اِس کام کے لئے ہم میں سے ہر دسواں آدمی کافی ہے۔ باقی سب لوگ سیدھے جِبعہ سے لڑنے جائیں تاکہ اُس شرم ناک جرم کا مناسب بدلہ لیں جو اسرائیل میں ہوا ہے۔“
پہلے اسرائیلی بیت ایل چلے گئے۔ وہاں اُنہوں نے اللہ سے دریافت کیا، ”کون سا قبیلہ ہمارے آگے آگے چلے جب ہم بن یمینیوں پر حملہ کریں؟“ رب نے جواب دیا، ”یہوداہ سب سے آگے چلے۔“
اسرائیلی بیت ایل چلے گئے اور شام تک رب کے حضور روتے رہے۔ اُنہوں نے رب سے پوچھا، ”کیا ہم دوبارہ اپنے بن یمینی بھائیوں سے لڑنے جائیں؟“ رب نے جواب دیا، ”ہاں، اُن پر حملہ کرو!“ یہ سن کر اسرائیلیوں کا حوصلہ بڑھ گیا اور وہ اگلے دن وہیں کھڑے ہو گئے جہاں پہلے دن کھڑے ہوئے تھے۔
اسرائیلی بیت ایل چلے گئے اور شام تک رب کے حضور روتے رہے۔ اُنہوں نے رب سے پوچھا، ”کیا ہم دوبارہ اپنے بن یمینی بھائیوں سے لڑنے جائیں؟“ رب نے جواب دیا، ”ہاں، اُن پر حملہ کرو!“ یہ سن کر اسرائیلیوں کا حوصلہ بڑھ گیا اور وہ اگلے دن وہیں کھڑے ہو گئے جہاں پہلے دن کھڑے ہوئے تھے۔
پھر اسرائیل کا پورا لشکر بیت ایل چلا گیا۔ وہاں وہ شام تک رب کے حضور روتے اور روزہ رکھتے رہے۔ اُنہوں نے رب کو بھسم ہونے والی قربانیاں اور سلامتی کی قربانیاں پیش کر کے
جہاں فینحاس بن اِلی عزر بن ہارون امام تھا۔) اسرائیلیوں نے پوچھا، ”کیا ہم ایک اَور مرتبہ اپنے بن یمینی بھائیوں سے لڑنے جائیں یا اِس سے باز آئیں؟“ رب نے جواب دیا، ”اُن پر حملہ کرو، کیونکہ کل ہی مَیں اُنہیں تمہارے حوالے کر دوں گا۔“
بن یمینی دوبارہ شہر سے نکل کر اُن پر ٹوٹ پڑے۔ جو راستے بیت ایل اور جِبعہ کی طرف لے جاتے ہیں اُن پر اور کھلے میدان میں اُنہوں نے تقریباً 30 اسرائیلیوں کو مار ڈالا۔ یوں لڑتے لڑتے وہ شہر سے دُور ہوتے گئے۔
وہ پکارے، ”اب ہم اُنہیں پہلی دو مرتبہ کی طرح شکست دیں گے!“ لیکن اسرائیلیوں نے منصوبہ باندھ لیا تھا، ”ہم اُن کے آگے آگے بھاگتے ہوئے اُنہیں شہر سے دُور راستوں پر کھینچ لیں گے۔“
یوں وہ بھاگنے لگے اور بن یمینی اُن کے پیچھے پڑ گئے۔ لیکن بعل تمر کے قریب اسرائیلی رُک کر مُڑ گئے اور اُن کا سامنا کرنے لگے۔ اب باقی اسرائیلی جو جِبع کے ارد گرد اور کھلے میدان میں گھات میں بیٹھے تھے اپنی چھپنے کی جگہوں سے نکل آئے۔
اچانک جِبعہ کے بن یمینیوں کو 10,000 بہترین فوجیوں کا سامنا کرنا پڑا، اُن مردوں کا جو پورے اسرائیل سے چنے گئے تھے۔ بن یمینی اُن سے خوب لڑنے لگے، لیکن اُن کی آنکھیں ابھی اِس بات کے لئے بند تھیں کہ اُن کا انجام قریب آ گیا ہے۔
تب بن یمینیوں نے جان لیا کہ دشمن ہم پر غالب آ گئے ہیں۔ کیونکہ اسرائیلی فوج نے اپنے بھاگ جانے سے اُنہیں جِبعہ سے دُور کھینچ لیا تھا تاکہ شہر کے ارد گرد گھات میں بیٹھے مردوں کو شہر پر حملہ کرنے کا موقع مہیا کریں۔
پھر منصوبے کے مطابق آگ لگا کر دھوئیں کا بڑا بادل پیدا کیا تاکہ بھاگنے والے اسرائیلیوں کو اشارہ مل جائے کہ وہ مُڑ کر بن یمینیوں کا مقابلہ کریں۔ اُس وقت تک بن یمینیوں نے تقریباً 30 اسرائیلیوں کو مار ڈالا تھا، اور اُن کا خیال تھا کہ ہم اُنہیں پہلے کی طرح شکست دے رہے ہیں۔
پھر منصوبے کے مطابق آگ لگا کر دھوئیں کا بڑا بادل پیدا کیا تاکہ بھاگنے والے اسرائیلیوں کو اشارہ مل جائے کہ وہ مُڑ کر بن یمینیوں کا مقابلہ کریں۔ اُس وقت تک بن یمینیوں نے تقریباً 30 اسرائیلیوں کو مار ڈالا تھا، اور اُن کا خیال تھا کہ ہم اُنہیں پہلے کی طرح شکست دے رہے ہیں۔
تب اُنہوں نے مشرق کے ریگستان کی طرف فرار ہونے کی کوشش کی۔ لیکن اب وہ مرد بھی اُن کا تعاقب کرنے لگے جنہوں نے گھات میں بیٹھ کر جِبعہ پر حملہ کیا تھا۔ یوں اسرائیلیوں نے مفروروں کو گھیر کر مار ڈالا۔
تب اُنہوں نے مشرق کے ریگستان کی طرف فرار ہونے کی کوشش کی۔ لیکن اب وہ مرد بھی اُن کا تعاقب کرنے لگے جنہوں نے گھات میں بیٹھ کر جِبعہ پر حملہ کیا تھا۔ یوں اسرائیلیوں نے مفروروں کو گھیر کر مار ڈالا۔
جو بچ گئے وہ ریگستان کی چٹان رِمّون کی طرف بھاگ نکلے۔ لیکن اسرائیلیوں نے راستے میں اُن کے 5,000 افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ اِس کے بعد اُنہوں نے جِدعوم تک اُن کا تعاقب کیا۔ مزید 2,000 بن یمینی ہلاک ہوئے۔
تب اسرائیلی تعاقب کرنے سے باز آ کر بن یمین کے قبائلی علاقے میں واپس آئے۔ وہاں اُنہوں نے جگہ بہ جگہ جا کر سب کچھ موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ جو بھی اُنہیں ملا وہ تلوار کی زد میں آ گیا، خواہ انسان تھا یا حیوان۔ ساتھ ساتھ اُنہوں نے تمام شہروں کو آگ لگا دی۔