صور کے بارے میں اللہ کا فرمان: اے ترسیس کے عمدہ جہازو ، واویلا کرو! کیونکہ صور تباہ ہو گیا ہے، وہاں ٹکنے کی جگہ تک نہیں رہی۔ جزیرۂ قبرص سے واپس آتے وقت اُنہیں اطلاع دی گئی۔
لیکن اب شرم سار ہو، اے صیدا، کیونکہ سمندر کا قلعہ بند شہر صور کہتا ہے، ”ہائے، سب کچھ تباہ ہو گیا ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ مَیں نے نہ کبھی دردِ زہ میں مبتلا ہو کر بچے جنم دیئے، نہ کبھی بیٹے بیٹیاں پالے۔“
کس نے صور کے خلاف یہ منصوبہ باندھا؟ یہ شہر تو پہلے بادشاہوں کو تخت پر بٹھایا کرتا تھا، اور اُس کے سوداگر رئیس تھے، اُس کے تاجر دنیا کے شرفا میں گنے جاتے تھے۔
اے ترسیس بیٹی، اب سے اپنی زمین کی کھیتی باڑی کر، اُن کسانوں کی طرح کاشت کاری کر جو دریائے نیل کے کنارے اپنی فصلیں لگاتے ہیں، کیونکہ تیری بندرگاہ جاتی رہی ہے۔
اُس نے فرمایا، ”اے صیدا بیٹی، اب سے تیری رنگ رلیاں بند رہیں گی۔ اے کنواری جس کی عصمت دری ہوئی ہے، اُٹھ اور سمندر کو پار کر کے قبرص میں پناہ لے۔ لیکن وہاں بھی تُو آرام نہیں کر پائے گی۔“
ملکِ بابل پر نظر ڈالو۔ یہ قوم تو نیست و نابود ہو گئی، اُس کا ملک جنگلی جانوروں کا گھر بن گیا ہے۔ اسوریوں نے بُرج بنا کر اُسے گھیر لیا اور اُس کے قلعوں کو ڈھا دیا۔ ملبے کا ڈھیر ہی رہ گیا ہے۔
تب صور انسان کی یاد سے اُتر جائے گا۔ لیکن 70 سال یعنی ایک بادشاہ کی مدت العمر کے بعد صور اُس طرح بحال ہو جائے گا جس طرح گیت میں کسبی کے بارے میں گایا جاتا ہے،
لیکن جو پیسے وہ کمائے گی وہ رب کے لئے مخصوص ہوں گے۔ وہ ذخیرہ کرنے کے لئے جمع نہیں ہوں گے بلکہ رب کے حضور ٹھہرنے والوں کو دیئے جائیں گے تاکہ جی بھر کر کھا سکیں اور شاندار کپڑے پہن سکیں۔