”اے آدم زاد، تُو ایک سرکش قوم کے درمیان رہتا ہے۔ گو اُن کی آنکھیں ہیں توبھی کچھ نہیں دیکھتے، گو اُن کے کان ہیں توبھی کچھ نہیں سنتے۔ کیونکہ یہ قوم ہٹ دھرم ہے۔
اے آدم زاد، اب اپنا سامان یوں لپیٹ لے جس طرح تجھے جلاوطن کیا جا رہا ہو۔ پھر دن کے وقت اور اُن کے دیکھتے دیکھتے گھر سے روانہ ہو کر کسی اَور جگہ چلا جا۔ شاید اُنہیں سمجھ آئے کہ اُنہیں جلاوطن ہونا ہے، حالانکہ یہ قوم سرکش ہے۔
دن کے وقت اُن کے دیکھتے دیکھتے اپنا سامان گھر سے نکال لے، یوں جیسے تُو جلاوطنی کے لئے تیاریاں کر رہا ہو۔ پھر شام کے وقت اُن کی موجودگی میں جلاوطن کا سا کردار ادا کر کے روانہ ہو جا۔
اُن کے دیکھتے دیکھتے اندھیرے میں اپنا سامان کندھے پر رکھ کر وہاں سے نکل جا۔ لیکن اپنا منہ ڈھانپ لے تاکہ تُو ملک کو دیکھ نہ سکے۔ لازم ہے کہ تُو یہ سب کچھ کرے، کیونکہ مَیں نے مقرر کیا ہے کہ تُو اسرائیلی قوم کو آگاہ کرنے کا نشان بن جائے۔“
مَیں نے ویسا ہی کیا جیسا رب نے مجھے حکم دیا تھا۔ مَیں نے اپنا سامان یوں لپیٹ لیا جیسے مجھے جلاوطن کیا جا رہا ہو۔ دن کے وقت مَیں اُسے گھر سے باہر لے گیا، شام کو مَیں نے اپنے ہاتھوں سے دیوار میں سوراخ بنا لیا۔ لوگوں کے دیکھتے دیکھتے مَیں سامان کو اپنے کندھے پر اُٹھا کر وہاں سے نکل آیا۔ اُتنے میں اندھیرا ہو گیا تھا۔
جو رئیس تمہارے درمیان ہے وہ اندھیرے میں اپنا سامان کندھے پر اُٹھا کر چلا جائے گا۔ دیوار میں سوراخ بنایا جائے گا تاکہ وہ نکل سکے۔ وہ اپنا منہ ڈھانپ لے گا تاکہ ملک کو نہ دیکھ سکے۔
لیکن مَیں اپنا جال اُس پر ڈال دوں گا، اور وہ میرے پھندے میں پھنس جائے گا۔ مَیں اُسے بابل لاؤں گا جو بابلیوں کے ملک میں ہے، اگرچہ وہ اُسے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھے گا۔ وہیں وہ وفات پائے گا۔
جتنے بھی ملازم اور دستے اُس کے ارد گرد ہوں گے اُن سب کو مَیں ہَوا میں اُڑا کر چاروں طرف منتشر کر دوں گا۔ اپنی تلوار کو میان سے کھینچ کر مَیں اُن کے پیچھے پڑا رہوں گا۔
لیکن مَیں اُن میں سے چند ایک کو بچا کر تلوار، کال اور مہلک وبا کی زد میں نہیں آنے دوں گا۔ کیونکہ لازم ہے کہ جن اقوام میں بھی وہ جا بسیں وہاں وہ اپنی مکروہ حرکتیں سنائیں۔ تب یہ اقوام بھی جان لیں گی کہ مَیں ہی رب ہوں‘۔“
ساتھ ساتھ اُمّت کو بتا، ’رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ ملکِ اسرائیل کے شہر یروشلم کے باشندے پریشانی میں اپنا کھانا کھائیں گے اور دہشت زدہ حالت میں اپنا پانی پئیں گے، کیونکہ اُن کا ملک تباہ اور ہر برکت سے خالی ہو جائے گا۔ اور سبب اُس کے باشندوں کا ظلم و تشدد ہو گا۔
جواب میں اُنہیں بتا، ’رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ مَیں اِس کہاوت کو ختم کروں گا، آئندہ یہ اسرائیل میں استعمال نہیں ہو گی۔‘ اُنہیں یہ بھی بتا، ’وہ وقت قریب ہی ہے جب ہر رویا پوری ہو جائے گی۔
کیونکہ مَیں رب ہوں۔ جو کچھ مَیں فرماتا ہوں وہ وجود میں آتا ہے۔ اے سرکش قوم، دیر نہیں ہو گی بلکہ تمہارے ہی ایام میں مَیں بات بھی کروں گا اور اُسے پورا بھی کروں گا۔‘ یہ رب قادرِ مطلق کا فرمان ہے۔“
”اے آدم زاد، اسرائیلی قوم تیرے بارے میں کہتی ہے، ’جو رویا یہ آدمی دیکھتا ہے وہ بڑی دیر کے بعد ہی پوری ہو گی، اُس کی پیش گوئیاں دُور کے مستقبل کے بارے میں ہیں۔‘
لیکن اُنہیں جواب دے، ’رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ جو کچھ بھی مَیں فرماتا ہوں اُس میں مزید دیر نہیں ہو گی بلکہ وہ جلد ہی پورا ہو گا۔‘ یہ رب قادرِ مطلق کا فرمان ہے۔“