آخرکار دانیال میرے حضور آیا جس کا نام بیل طَشَضَر رکھا گیا ہے (میرے دیوتا کا نام بیل ہے)۔ دانیال میں مُقدّس دیوتاؤں کی روح ہے۔ اُسے بھی مَیں نے اپنا خواب سنایا۔
مَیں بولا، ”اے بیل طَشَضَر، تم جادوگروں کے سردار ہو، اور مَیں جانتا ہوں کہ مُقدّس دیوتاؤں کی روح تم میں ہے۔ کوئی بھی بھید تمہارے لئے اِتنا مشکل نہیں ہے کہ تم اُسے کھول نہ سکو۔ اب میرا خواب سن کر اُس کی تعبیر کرو!
اُس کے پتے خوب صورت تھے، اور وہ بہت پھل لاتا تھا۔ اُس کے سائے میں جنگلی جانور پناہ لیتے، اُس کی شاخوں میں پرندے بسیرا کرتے تھے۔ ہر انسان و حیوان کو اُس سے خوراک ملتی تھی۔
اُس نے بڑے زور سے آواز دی، ’درخت کو کاٹ ڈالو! اُس کی شاخیں توڑ دو، اُس کے پتے جھاڑ دو، اُس کا پھل بکھیر دو! جانور اُس کے سائے میں سے نکل کر بھاگ جائیں، پرندے اُس کی شاخوں سے اُڑ جائیں۔
لیکن اُس کا مُڈھ جڑوں سمیت زمین میں رہنے دو۔ اُسے لوہے اور پیتل کی زنجیروں میں جکڑ کر کھلے میدان کی گھاس میں چھوڑ دو۔ وہاں اُسے آسمان کی اوس تر کرے، اور جانوروں کے ساتھ زمین کی گھاس ہی اُس کو نصیب ہو۔
کیونکہ مُقدّس فرشتوں نے فتویٰ دیا ہے کہ ایسا ہی ہو تاکہ انسان جان لے کہ اللہ تعالیٰ کا اختیار انسانی سلطنتوں پر ہے۔ وہ اپنی ہی مرضی سے لوگوں کو اُن پر مقرر کرتا ہے، خواہ وہ کتنے ذلیل کیوں نہ ہوں۔‘
مَیں، نبوکدنضر نے خواب میں یہ کچھ دیکھا۔ اے بیل طَشَضَر، اب مجھے اِس کی تعبیر پیش کرو۔ میری سلطنت کے تمام دانش مند اِس میں ناکام رہے ہیں۔ لیکن تم یہ کر پاؤ گے، کیونکہ تم میں مُقدّس دیوتاؤں کی روح ہے۔“
تب بیل طَشَضَریعنی دانیال کے رونگٹے کھڑے ہو گئے، اور جو خیالات اُبھر آئے اُن سے اُس پر کافی دیر تک سخت دہشت طاری رہی۔ آخرکار بادشاہ بولا، ”اے بیل طَشَضَر، خواب اور اُس کا مطلب تجھے اِتنا دہشت زدہ نہ کرے۔“ بیلطَشَضَر نے جواب دیا، ”میرے آقا، کاش خواب کی باتیں آپ کے دشمنوں اور مخالفوں کو پیش آئیں!
اُس کے پتے خوب صورت تھے، اور وہ بہت سا پھل لاتا تھا۔ اُس کے سائے میں جنگلی جانور پناہ لیتے، اُس کی شاخوں میں پرندے بسیرا کرتے تھے۔ ہر انسان و حیوان کو اُس سے خوراک ملتی تھی۔
اے بادشاہ، آپ ہی یہ درخت ہیں! آپ ہی بڑے اور طاقت ور ہو گئے ہیں بلکہ آپ کی عظمت بڑھتے بڑھتے آسمان سے باتیں کرنے لگی، آپ کی سلطنت دنیا کی انتہا تک پھیل گئی ہے۔
اے بادشاہ، اِس کے بعد آپ نے ایک مُقدّس فرشتے کو دیکھا جو آسمان سے اُتر کر بولا، ’درخت کو کاٹ ڈالو! اُسے تباہ کرو، لیکن اُس کا مُڈھ جڑوں سمیت زمین میں رہنے دو۔ اُسے لوہے اور پیتل کی زنجیروں میں جکڑ کر کھلے میدان کی گھاس میں چھوڑ دو۔ وہاں اُسے آسمان کی اوس تر کرے، اور جانوروں کے ساتھ زمین کی گھاس ہی اُس کو نصیب ہو۔ سات سال یوں ہی گزر جائیں۔
کہ آپ کو انسانی سنگت سے نکال کر بھگایا جائے گا۔ تب آپ جنگلی جانوروں کے ساتھ رہ کر بَیلوں کی طرح گھاس چریں گے اور آسمان کی اوس سے تر ہو جائیں گے۔ سات سال یوں ہی گزریں گے۔ پھر آخرکار آپ اقرار کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کا انسانی سلطنتوں پر اختیار ہے، وہ اپنی ہی مرضی سے لوگوں کو اُن پر مقرر کرتا ہے۔
لیکن خواب میں یہ بھی کہا گیا کہ درخت کے مُڈھ کو جڑوں سمیت زمین میں چھوڑا جائے۔ اِس کا مطلب ہے کہ آپ کی سلطنت تاہم قائم رہے گی۔ جب آپ اعتراف کریں گے کہ تمام اختیار آسمان کے ہاتھ میں ہے تو آپ کو سلطنت واپس ملے گی۔
اے بادشاہ، اب مہربانی سے میرا مشورہ قبول فرمائیں۔ انصاف کر کے اور مظلوموں پر کرم فرما کر اپنے گناہوں کو دُور کریں۔ شاید ایسا کرنے سے آپ کی خوش حالی قائم رہے۔“
تب وہ کہنے لگا، ”لو، یہ عظیم شہر دیکھو جو مَیں نے اپنی رہائش کے لئے تعمیر کیا ہے! یہ سب کچھ مَیں نے اپنی ہی زبردست قوت سے بنا لیا ہے تاکہ میری شان و شوکت مزید بڑھتی جائے۔“
تجھے انسانی سنگت سے نکال کر بھگایا جائے گا، اور تُو جنگلی جانوروں کے ساتھ رہ کر بَیل کی طرح گھاس چَرے گا۔ سات سال یوں ہی گزر جائیں گے۔ پھر آخرکار تُو اقرار کرے گا کہ اللہ تعالیٰ کا انسانی سلطنتوں پر اختیار ہے، وہ اپنی ہی مرضی سے لوگوں کو اُن پر مقرر کرتا ہے۔“
جوں ہی آواز بند ہوئی تو ایسا ہی ہوا۔ نبوکدنضر کو انسانی سنگت سے نکال کر بھگایا گیا، اور وہ بَیلوں کی طرح گھاس چرنے لگا۔ اُس کا جسم آسمان کی اوس سے تر ہوتا رہا۔ ہوتے ہوتے اُس کے بال عقاب کے پَروں جتنے لمبے اور اُس کے ناخن پرندے کے چنگل کی مانند ہوئے۔
لیکن سات سال گزرنے کے بعد مَیں، نبوکدنضر اپنی آنکھوں کو آسمان کی طرف اُٹھا کر دوبارہ ہوش میں آیا۔ تب مَیں نے اللہ تعالیٰ کی تمجید کی، مَیں نے اُس کی حمد و ثنا کی جو ہمیشہ تک زندہ ہے۔ اُس کی حکومت ابدی ہے، اُس کی سلطنت نسل در نسل قائم رہتی ہے۔
اُس کی نسبت دنیا کے تمام باشندے صفر کے برابر ہیں۔ وہ آسمانی فوج اور دنیا کے باشندوں کے ساتھ جو جی چاہے کرتا ہے۔ اُسے کچھ کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا، کوئی اُس سے جواب طلب کر کے پوچھ نہیں سکتا، ”تُو نے کیا کِیا؟“
جوں ہی مَیں دوبارہ ہوش میں آیا تو مجھے پہلی شاہی عزت اور شان و شوکت بھی از سرِ نو حاصل ہوئی۔ میرے مشیر اور شرفا دوبارہ میرے سامنے حاضر ہوئے، اور مجھے دوبارہ تخت پر بٹھایا گیا۔ پہلے کی نسبت میری عظمت میں اضافہ ہوا۔
اب مَیں، نبوکدنضر آسمان کے بادشاہ کی حمد و ثنا کرتا ہوں۔ مَیں اُسی کو جلال دیتا ہوں، کیونکہ جو کچھ بھی وہ کرے وہ صحیح ہے۔ اُس کی تمام راہیں منصفانہ ہیں۔ جو مغرور ہو کر زندگی گزارتے ہیں اُنہیں وہ پست کرنے کے قابل ہے۔