مَیں چاہتا ہوں کہ آپ جان لیں کہ مَیں آپ کے لئے کس قدر جاں فشانی کر رہا ہوں — آپ کے لئے، لودیکیہ والوں کے لئے اور اُن تمام ایمان داروں کے لئے بھی جن کی میرے ساتھ ملاقات نہیں ہوئی۔
میری کوشش یہ ہے کہ اُن کی دلی حوصلہ افزائی کی جائے اور وہ محبت میں ایک ہو جائیں، کہ اُنہیں وہ ٹھوس اعتماد حاصل ہو جائے جو پوری سمجھ سے پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ مَیں چاہتا ہوں کہ وہ اللہ کا راز جان لیں۔ راز کیا ہے؟ مسیح خود۔
کیونکہ گو مَیں جسم کے لحاظ سے حاضر نہیں ہوں، لیکن روح میں مَیں آپ کے ساتھ ہوں۔ اور مَیں یہ دیکھ کر خوش ہوں کہ آپ کتنی منظم زندگی گزارتے ہیں، کہ آپ کا مسیح پر ایمان کتنا پختہ ہے۔
محتاط رہیں کہ کوئی آپ کو فلسفیانہ اور محض فریب دینے والی باتوں سے اپنے جال میں نہ پھنسا لے۔ ایسی باتوں کا سرچشمہ مسیح نہیں بلکہ انسانی روایتیں اور اِس دنیا کی قوتیں ہیں۔
آپ کو بپتسمہ دے کر مسیح کے ساتھ دفنایا گیا اور آپ کو ایمان سے زندہ کر دیا گیا۔ کیونکہ آپ اللہ کی قدرت پر ایمان لائے تھے، اُسی قدرت پر جس نے مسیح کو مُردوں میں سے زندہ کر دیا تھا۔
پہلے آپ اپنے گناہوں اور نامختون جسمانی حالت کے سبب سے مُردہ تھے، لیکن اب اللہ نے آپ کو مسیح کے ساتھ زندہ کر دیا ہے۔ اُس نے ہمارے تمام گناہوں کو معاف کر دیا ہے۔
اُس نے حکمرانوں اور اختیار والوں سے اُن کا اسلحہ چھین کر سب کے سامنے اُن کی رُسوائی کی۔ ہاں، مسیح کی صلیبی موت سے وہ اللہ کے قیدی بن گئے اور اُنہیں فتح کے جلوس میں اُس کے پیچھے پیچھے چلنا پڑا۔
چنانچہ کوئی آپ کو اِس وجہ سے مجرم نہ ٹھہرائے کہ آپ کیا کیا کھاتے پیتے یا کون کون سی عیدیں مناتے ہیں۔ اِسی طرح کوئی آپ کی عدالت نہ کرے اگر آپ ہلال کی عید یا سبت کا دن نہیں مناتے۔
ایسے لوگ آپ کو مجرم نہ ٹھہرائیں جو ظاہری فروتنی اور فرشتوں کی پوجا پر اصرار کرتے ہیں۔ بڑی تفصیل سے اپنی رویاؤں میں دیکھی ہوئی باتیں بیان کرتے کرتے اُن کے غیرروحانی ذہن خواہ مخواہ پھول جاتے ہیں۔
یوں اُنہوں نے مسیح کے ساتھ لگے رہنا چھوڑ دیا اگرچہ وہ بدن کا سر ہے۔ وہی جوڑوں اور پٹھوں کے ذریعے پورے بدن کو سہارا دے کر اُس کے مختلف حصوں کو جوڑ دیتا ہے۔ یوں پورا بدن اللہ کی مدد سے ترقی کرتا جاتا ہے۔
آپ تو مسیح کے ساتھ مر کر دنیا کی قوتوں سے آزاد ہو گئے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو آپ زندگی ایسے کیوں گزارتے ہیں جیسے کہ آپ ابھی تک اِس دنیا کی ملکیت ہیں؟ آپ کیوں اِس کے احکام کے تابع رہتے ہیں؟
بےشک یہ احکام جو گھڑے ہوئے مذہبی فرائض، نام نہاد فروتنی اور جسم کے سخت دباؤ کا تقاضا کرتے ہیں حکمت پر مبنی تو لگتے ہیں، لیکن یہ بےکار ہیں اور صرف جسم ہی کی خواہشات پوری کرتے ہیں۔