جب ابیاہ مر کر اپنے باپ دادا سے جا ملا تو اُسے یروشلم کے اُس حصے میں دفنایا گیا جو ’داؤد کا شہر‘ کہلاتا ہے۔ پھر اُس کا بیٹا آسا تخت نشین ہوا۔ آسا کی حکومت کے تحت ملک میں 10 سال تک امن و امان قائم رہا۔
اُس نے اجنبی معبودوں کی قربان گاہوں کو اونچی جگہوں کے مندروں سمیت گرا کر دیوتاؤں کے لئے مخصوص کئے گئے ستونوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور یسیرت دیوی کے کھمبے کاٹ ڈالے۔
بادشاہ نے یہوداہ کے باشندوں سے کہا، ”آئیں، ہم اِن شہروں کی قلعہ بندی کریں! ہم اِن کے ارد گرد فصیلیں بنا کر اُنہیں بُرجوں، دروازوں اور کنڈوں سے مضبوط کریں۔ کیونکہ اب تک ملک ہمارے ہاتھ میں ہے۔ چونکہ ہم رب اپنے خدا کے طالب رہے ہیں اِس لئے اُس نے ہمیں چاروں طرف صلح سلامتی مہیا کی ہے۔“ چنانچہ قلعہ بندی کا کام شروع ہوا بلکہ تکمیل تک پہنچ سکا۔
آسا کی فوج میں بڑی ڈھالوں اور نیزوں سے لیس یہوداہ کے 3,00,000 افراد تھے۔ اِس کے علاوہ چھوٹی ڈھالوں اور کمانوں سے مسلح بن یمین کے 2,80,000 افراد تھے۔ سب تجربہ کار فوجی تھے۔
آسا نے رب اپنے خدا سے التماس کی، ”اے رب، صرف تُو ہی بےبسوں کو طاقت وروں کے حملوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ اے رب ہمارے خدا، ہماری مدد کر! کیونکہ ہم تجھ پر بھروسا رکھتے ہیں۔ تیرا ہی نام لے کر ہم اِس بڑی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے نکلے ہیں۔ اے رب، تُو ہی ہمارا خدا ہے۔ ایسا نہ ہونے دے کہ انسان تیری مرضی کی خلاف ورزی کرنے میں کامیاب ہو جائے۔“
اور آسا نے اپنے فوجیوں کے ساتھ جرار تک اُن کا تعاقب کیا۔ دشمن کے اِتنے افراد ہلاک ہوئے کہ اُس کی فوج بعد میں بحال نہ ہو سکی۔ رب خود اور اُس کی فوج نے دشمن کو تباہ کر دیا تھا۔ یہوداہ کے مردوں نے بہت سا مال لُوٹ لیا۔
وہ جرار کے ارد گرد کے شہروں پر بھی قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے، کیونکہ مقامی لوگوں میں رب کی دہشت پھیل گئی تھی۔ نتیجے میں اِن شہروں سے بھی بہت سا مال چھین لیا گیا۔