Judges 15

کچھ دن گزر گئے۔ جب گندم کی کٹائی ہونے لگی تو سمسون بکری کا بچہ اپنے ساتھ لے کر اپنی بیوی سے ملنے گیا۔ سُسر کے گھر پہنچ کر اُس نے بیوی کے کمرے میں جانے کی درخواست کی۔ لیکن باپ نے انکار کیا۔
بعد از مدّتی، در موسم درو گندم، سامسون برای دیدن زن خود رفت. او یک بُزغاله به عنوان هدیه، با خود برد و به پدر زن خود گفت: «می‌خواهم به اتاق زن خود بروم.» امّا پدر زنش به او اجازه نداد.
اُس نے کہا، ”یہ نہیں ہو سکتا! مَیں نے بیٹی کی شادی آپ کے شہ بالے سے کرا دی ہے۔ اصل میں مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اب آپ اُس سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ لیکن کوئی بات نہیں۔ اُس کی چھوٹی بہن سے شادی کر لیں۔ وہ زیادہ خوب صورت ہے۔“
او گفت: «من فکر کردم که تو از او بدت می‌آید، پس او را به رفیقت دادم. امّا خواهر کوچکتر او، از او هم زیباتر است، تو می‌توانی با او ازدواج کنی.»
سمسون بولا، ”اِس دفعہ مَیں فلستیوں سے خوب بدلہ لوں گا، اور کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ مَیں حق پر نہیں ہوں۔“
سامسون گفت: «اکنون دیگر هر بلایی به سر فلسطینیان بیاورم، تقصیر من نیست.»
وہاں سے نکل کر اُس نے 300 لومڑیوں کو پکڑ لیا۔ دو دو کی دُموں کو باندھ کر اُس نے ہر جوڑے کی دُموں کے ساتھ مشعل لگا دی
پس رفت و سیصد شغال گرفت و دمهای آنها را دو به دو به هم بست و در بین هر جفت یک مشعل گذاشت.
اور پھر مشعلوں کو جلا کر لومڑیوں کو فلستیوں کے اناج کے کھیتوں میں بھگا دیا۔ کھیتوں میں پڑے پُولے اُس اناج سمیت بھسم ہوئے جو اب تک کاٹا نہیں گیا تھا۔ انگور اور زیتون کے باغ بھی تباہ ہو گئے۔
سپس مشعلها را روشن نمود و شغالها را در بین کشتزارها و تاکستانهای فلسطینیان رها کرد و به این ترتیب تمام کشتزارها و درختان زیتون آنها را به آتش کشید.
فلستیوں نے دریافت کیا کہ یہ کس کا کام ہے۔ پتا چلا کہ سمسون نے یہ سب کچھ کیا ہے، اور کہ وجہ یہ ہے کہ تِمنت میں اُس کے سُسر نے اُس کی بیوی کو اُس سے چھین کر اُس کے شہ بالے کو دے دیا ہے۔ یہ سن کر فلستی تِمنت گئے اور سمسون کے سُسر کو اُس کی بیٹی سمیت پکڑ کر جلا دیا۔
فلسطینیان پرسیدند: «چه کسی این کار را کرده است؟» گفتند: «سامسون، داماد تمنی، زیرا تمنی زن او را به دوستش داده است.» آنگاه فلسطینیان رفتند و آن زن را همراه پدرش در آتش سوزاندند.
تب سمسون نے اُن سے کہا، ”یہ تم نے کیا کِیا ہے! جب تک مَیں نے پورا بدلہ نہ لیا مَیں نہیں رُکوں گا۔“
سامسون به آنها گفت: «چون شما این کار را کردید، پس سوگند می‌خورم تا انتقام آنها را از شما نگیرم، آرام نمی‌نشینم.»
وہ اِتنے زور سے اُن پر ٹوٹ پڑا کہ بےشمار فلستی ہلاک ہوئے۔ پھر وہ اُس جگہ سے اُتر کر عیطام کی چٹان کے غار میں رہنے لگا۔
پس با یک حملهٔ شدید تعداد زیادی از آنها را کشت و رفت و در غار صخرهٔ عیطام ساکن شد.
جواب میں فلستی فوج یہوداہ کے قبائلی علاقے میں داخل ہوئی۔ وہاں وہ لحی شہر کے پاس خیمہ زن ہوئے۔
فلسطینیان هم رفته، در یهودا اردو زده شهر لِحی را محاصره کردند.
یہوداہ کے باشندوں نے پوچھا، ”کیا وجہ ہے کہ آپ ہم سے لڑنے آئے ہیں؟“ فلستیوں نے جواب دیا، ”ہم سمسون کو پکڑنے آئے ہیں تاکہ اُس کے ساتھ وہ کچھ کریں جو اُس نے ہمارے ساتھ کیا ہے۔“
مردم یهودا از فلسطینیان پرسیدند: «چرا به جنگ ما آمده‌اید؟» آنها جواب دادند: «ما آمده‌ایم تا سامسون را دستگیر کنیم و انتقام خود را از او بگیریم.»
تب یہوداہ کے 3,000 مرد عیطام پہاڑ کے غار کے پاس آئے اور سمسون سے کہا، ”یہ آپ نے ہمارے ساتھ کیا کِیا؟ آپ کو تو پتا ہے کہ فلستی ہم پر حکومت کرتے ہیں۔“ سمسون نے جواب دیا، ”مَیں نے اُن کے ساتھ صرف وہ کچھ کیا جو اُنہوں نے میرے ساتھ کیا تھا۔“
آنگاه سه هزار نفر از مردم یهودا به غار صخرهٔ عیطام پیش سامسون رفتند و به او گفتند: «آیا خبر نداری که فلسطینیان بر ما حکومت می‌کنند؟ پس این چه کاری است که با ما کرده‌ای؟» سامسون جواب داد: «همان کاری را که با من کردند، من هم با ایشان کردم.»
یہوداہ کے مرد بولے، ”ہم آپ کو باندھ کر فلستیوں کے حوالے کرنے آئے ہیں۔“ سمسون نے کہا، ”ٹھیک ہے، لیکن قَسم کھائیں کہ آپ خود مجھے قتل نہیں کریں گے۔“
آنها گفتند: «ما آمده‌ایم که تو را دستگیر کنیم و پیش فلسطینیان ببریم.» سامسون گفت: «بسیار خوب، امّا قول بدهید که مرا نکُشید.»
اُنہوں نے جواب دیا، ”ہم آپ کو ہرگز قتل نہیں کریں گے بلکہ آپ کو صرف باندھ کر اُن کے حوالے کر دیں گے۔“ چنانچہ وہ اُسے دو تازہ تازہ رسّوں سے باندھ کر فلستیوں کے پاس لے گئے۔
آنها جواب دادند: «خیر، تو را نمی‌کشیم. فقط تو را بسته به آنها خواهیم داد.» پس آنها دست و پای سامسون را با دو ریسمان نو بستند و از غار بیرون بردند.
سمسون ابھی لحی سے دُور تھا کہ فلستی نعرے لگاتے ہوئے اُس کی طرف دوڑے آئے۔ تب رب کا روح بڑے زور سے اُس پر نازل ہوا۔ اُس کے بازوؤں سے بندھے ہوئے رسّے سَن کے جلے ہوئے دھاگے جیسے کمزور ہو گئے، اور وہ پگھل کر ہاتھوں سے گر گئے۔
وقتی سامسون به لِحی رسید، فلسطینیان با دیدن او فریاد برآوردند. در همان لحظه روح خداوند به او قدرت بخشید و ریسمانهایی که با آنها او را بسته بودند مثل موم که در آتش بسوزد، آب شده به زمین ریختند.
کہیں سے گدھے کا تازہ جبڑا پکڑ کر اُس نے اُس کے ذریعے ہزار افراد کو مار ڈالا۔
آنگاه یک استخوان چانهٔ الاغی را که تازه مرده بود، دید. پس آن را برداشت و با آن هزار نفر را کشت.
اُس وقت اُس نے نعرہ لگایا، ”گدھے کے جبڑے سے مَیں نے اُن کے ڈھیر لگائے ہیں! گدھے کے جبڑے سے مَیں نے ہزار مردوں کو مار ڈالا ہے!“
سامسون گفت: «با استخوان لاشهٔ یک الاغ از کُشته پُشته ساختم، یعنی با استخوان چانه الاغ هزار مرد را کشتم!»
اِس کے بعد اُس نے گدھے کا یہ جبڑا پھینک دیا۔ اُس جگہ کا نام رامت لحی یعنی جبڑا پہاڑی پڑ گیا۔
وقتی حرف خود را تمام کرد، استخوان چانهٔ الاغ را به زمین انداخت و آنجا را «تپّهٔ استخوان چانه» نامید.
سمسون کو وہاں بڑی پیاس لگی۔ اُس نے رب کو پکار کر کہا، ”تُو ہی نے اپنے خادم کے ہاتھ سے اسرائیل کو یہ بڑی نجات دلائی ہے۔ لیکن اب مَیں پیاس سے مر کر نامختون دشمن کے ہاتھ میں آ جاؤں گا۔“
در این وقت، سامسون بسیار تشنه شده بود، پس به درگاه خداوند دعا کرده گفت: «امروز به این بنده‌ات، افتخار آن را دادی که قوم اسرائیل را نجات بدهم. آیا اکنون باید از تشنگی بمیرم و به دست این کافران بیفتم؟»
تب اللہ نے لحی میں زمین کو چھیدا، اور گڑھے سے پانی پھوٹ نکلا۔ سمسون اُس کا پانی پی کر دوبارہ تازہ دم ہو گیا۔ یوں اُس چشمے کا نام عین ہقّورے یعنی پکارنے والے کا چشمہ پڑ گیا۔ آج بھی وہ لحی میں موجود ہے۔
آنگاه خداوند گودالی را که در آنجا بود شکافت و از آن آب جاری شد. وقتی‌که از آن آب نوشید، جان تازه‌ای گرفت و حالش بجا آمد. به این خاطر آنجا را عین حقوری (یعنی چشمهٔ کسی‌که دعا کرد) نامید که تا به امروز در لِحی باقی است.
فلستیوں کے دور میں سمسون 20 سال تک اسرائیل کا قاضی رہا۔
سامسون در زمان فلسطینیان مدّت بیست سال بر اسرائیل حکومت کرد.