Ezekiel 29

در روزِ دوازدهم ماه دهم از سالِ دهم تبعید ما، خداوند به من فرمود:
یہویاکین بادشاہ کی جلاوطنی کے دسویں سال میں رب مجھ سے ہم کلام ہوا۔ دسویں مہینے کا 11واں دن تھا۔ رب نے فرمایا،
«ای انسان فانی، رو به سوی فرعون کن و علیه او و همهٔ مردم مصر نبوّت کن
”اے آدم زاد، مصر کے بادشاہ فرعون کی طرف رُخ کر کے اُس کے اور تمام مصر کے خلاف نبوّت کر!
و بگو خداوند متعال چنین می‌فرماید: اینک ای فرعون، من علیه تو هستم. ای هیولای بزرگ که در میان نهرها دراز کشیده‌ای و می‌گویی: 'رود نیل از آن من است و من آن را ساخته‌ام.'
اُسے بتا، ’رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ اے شاہِ مصر فرعون، مَیں تجھ سے نپٹنے کو ہوں۔ بےشک تُو ایک بڑا اژدہا ہے جو دریائے نیل کی مختلف شاخوں کے بیچ میں لیٹا ہوا کہتا ہے کہ یہ دریا میرا ہی ہے، مَیں نے خود اُسے بنایا۔
من قلّابها به فک تو خواهم زد و ماهیان نهرهایت را به فلس‌هایت خواهم چسباند، و درحالی‌که همهٔ ماهیان به فلس‌هایت چسبیده‌اند تو را از نهر بیرون خواهم کشید.
لیکن مَیں تیرے منہ میں کانٹے ڈال کر تجھے دریا سے نکال لاؤں گا۔ میرے کہنے پر تیری ندیوں کی تمام مچھلیاں تیرے چھلکوں کے ساتھ لگ کر تیرے ساتھ پکڑی جائیں گی۔
من تو و همهٔ آن ماهیان را به بیابان خواهم افکند. بدن تو به روی زمین خواهد افتاد و دفن نمی‌شود. من آن را خوراک پرندگان و حیوانات خواهم کرد.
مَیں تجھے اِن تمام مچھلیوں سمیت ریگستان میں پھینک چھوڑوں گا۔ تُو کھلے میدان میں گر کر پڑا رہے گا۔ نہ کوئی تجھے اکٹھا کرے گا، نہ جمع کرے گا بلکہ مَیں تجھے درندوں اور پرندوں کو کھلا دوں گا۔
آنگاه همهٔ مردم مصر خواهند دانست که من خداوند هستم. «اسرائیلی‌ها برای پشتیبانی به تو اتّکاء کردند امّا تو چوبدستی ضعیفی بیش نبودی.
تب مصر کے تمام باشندے جان لیں گے کہ مَیں ہی رب ہوں۔ تُو اسرائیل کے لئے سرکنڈے کی کچی چھڑی ثابت ہوا ہے۔
هنگامی‌که تو را به دست گرفتند، شکستی و شانهٔ ایشان را پاره کردی و هنگامی‌که به تو تکیه دادند، شکستی و کمرهایشان را به لرزه انداختی.
جب اُنہوں نے تجھے پکڑنے کی کوشش کی تو تُو نے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اُن کے کندھے کو زخمی کر دیا۔ جب اُنہوں نے اپنا پورا وزن تجھ پر ڈالا تو تُو ٹوٹ گیا، اور اُن کی کمر ڈانواں ڈول ہو گئی۔
پس اکنون من، خداوند متعال به تو می‌گویم: اینک شمشیری خواهم آورد تا مردم و حیوانات تو را نابود کند.
اِس لئے رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ مَیں تیرے خلاف تلوار بھیجوں گا جو ملک میں سے انسان و حیوان مٹا ڈالے گی۔
مصر سرزمینی متروک و ویران خواهد شد. آنگاه تو خواهی دانست که من خداوند هستم. «چون گفتی: رود نیل از آن توست و تو آن را ساختی،
ملکِ مصر ویران و سنسان ہو جائے گا۔ تب وہ جان لیں گے کہ مَیں ہی رب ہوں۔ چونکہ تُو نے دعویٰ کیا، ”دریائے نیل میرا ہی ہے، مَیں نے خود اُسے بنایا“
بنابراین من علیه تو و نهرهایت هستم و سرزمین مصر را از مجدل تا اسوان و تا مرز حبشه کاملاً ویران خواهم ساخت.
اِس لئے مَیں تجھ سے اور تیری ندیوں سے نپٹ لوں گا۔ مصر میں ہر طرف کھنڈرات نظر آئیں گے۔ شمال میں مجدال سے لے کر جنوبی شہر اسوان بلکہ ایتھوپیا کی سرحد تک مَیں مصر کو ویران و سنسان کر دوں گا۔
پای هیچ انسان و حیوانی از آن گذر نخواهد کرد و مدّت چهل سال متروک خواهد بود.
نہ انسان اور نہ حیوان کا پاؤں اُس میں سے گزرے گا۔ چالیس سال تک اُس میں کوئی نہیں بسے گا۔
من مصر را ویران‌ترین کشور جهان خواهم ساخت. مدّت چهل سال شهرهای مصر ویران باقی خواهند ماند، ویران‌تر از بدترین شهرهای ویران دیگر. مصریان را آواره خواهم کرد؛ ایشان به هر کشوری خواهند گریخت و با مردمان دیگر زندگی خواهند کرد.»
ارد گرد کے دیگر تمام ممالک کی طرح مَیں مصر کو بھی اُجاڑوں گا، ارد گرد کے دیگر تمام شہروں کی طرح مَیں مصر کے شہر بھی ملبے کے ڈھیر بنا دوں گا۔ چالیس سال تک اُن کی یہی حالت رہے گی۔ ساتھ ساتھ مَیں مصریوں کو مختلف اقوام و ممالک میں منتشر کر دوں گا۔
خداوند متعال می‌فرماید: «پس از چهل سال مصریان را از میان مللی که پراکنده ساختم، باز خواهم آورد
لیکن رب قادرِ مطلق یہ بھی فرماتا ہے کہ چالیس سال کے بعد مَیں مصریوں کو اُن ممالک سے نکال کر جمع کروں گا جہاں مَیں نے اُنہیں منتشر کر دیا تھا۔
و اجازه می‌دهم که در جنوب مصر، در میهن اصلی خود زیست کنند. ایشان ملّت ناتوانی خواند بود.
مَیں مصر کو بحال کر کے اُنہیں وطن یعنی جنوبی مصر میں واپس لاؤں گا۔ وہاں وہ ایک غیراہم سلطنت قائم کریں گے
از همهٔ حکومتها ناتوانتر و هرگز بر ملّتهای دیگر فرمانروایی نخواهند کرد. من ایشان را چنان کوچک خواهم کرد که دیگر نتوانند ارادهٔ خود را به دیگران تحمیل کنند.
جو باقی ممالک کی نسبت چھوٹی ہو گی۔ آئندہ وہ دیگر قوموں پر اپنا رُعب نہیں ڈالیں گے۔ مَیں خود دھیان دوں گا کہ وہ آئندہ اِتنے کمزور رہیں کہ دیگر قوموں پر حکومت نہ کر سکیں۔
اسرائیل دیگر هرگز برای یاری به ایشان تکیه نخواهد کرد. سرنوشت مصر به اسرائیل یادآوری خواهد کرد که تکیه کردن به آن چقدر نادرست است. آنگاه اسرائیل خواهد دانست که من، خداوند متعال هستم.»
آئندہ اسرائیل نہ مصر پر بھروسا کرنے اور نہ اُس سے لپٹ جانے کی آزمائش میں پڑے گا۔ تب وہ جان لیں گے کہ مَیں ہی رب قادرِ مطلق ہوں‘۔“
در روز اول ماه اول از سال بیست و هفتم تبعید ما، خداوند به من فرمود:
یہویاکین بادشاہ کی جلاوطنی کے 27ویں سال میں رب مجھ سے ہم کلام ہوا۔ پہلے مہینے کا پہلا دن تھا۔ اُس نے فرمایا،
«ای انسان فانی، وقتی نبوکدنصر، پادشاه بابل به صور حمله کرد او سربازان خود را مجبور کرد چنان بارهای سنگینی حمل کنند که موی سرشان ساییده شد و کچل شدند و پوست شانه‌های ایشان زخم شد، امّا نه پادشاه و نه سربازان او از این زحمات سودی بردند.
”اے آدم زاد، جب شاہِ بابل نبوکدنضر نے صور کا محاصرہ کیا تو اُس کی فوج کو سخت محنت کرنی پڑی۔ ہر سر گنجا ہوا، ہر کندھے کی جِلد چھل گئی۔ لیکن نہ اُسے اور نہ اُس کی فوج کو محنت کا مناسب اجر ملا۔
بنابراین من خداوند متعال چنین می‌گویم: من سرزمین مصر را به نبوکدنصر پادشاه خواهم داد. او در ازای مزد ارتش خود همهٔ ثروت مصر را تاراج می‌کند و به غنیمت می‌برد.
اِس لئے رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ مَیں شاہِ بابل نبوکدنضر کو مصر دے دوں گا۔ اُس کی دولت کو وہ اُٹھا کر لے جائے گا۔ اپنی فوج کو پیسے دینے کے لئے وہ مصر کو لُوٹ لے گا۔
من سرزمین مصر را در ازای مزد کاری که انجام داده به او می‌دهم، زیرا ایشان برای من کار می‌کردند. من، خداوند متعال سخن گفته‌ام.
چونکہ نبوکدنضر اور اُس کی فوج نے میرے لئے خوب محنت مشقت کی اِس لئے مَیں نے اُسے معاوضے کے طور پر مصر دے دیا ہے۔ یہ رب قادرِ مطلق کا فرمان ہے۔
«در آن روز قدرت گذشتهٔ قوم اسرائیل را تجدید می‌کنم و زبان تو را ای حزقیال، گویا می‌سازم تا همه بشنوند و بدانند که من خداوند هستم.»
جب یہ کچھ پیش آئے گا تو مَیں اسرائیل کو نئی طاقت دوں گا۔ اے حزقی ایل، اُس وقت مَیں تیرا منہ کھول دوں گا، اور تُو دوبارہ اُن کے درمیان بولے گا۔ تب وہ جان لیں گے کہ مَیں ہی رب ہوں۔“