ہو سکتا ہے کہ کسی نے یوں گناہ کیا کہ اُس نے کوئی جرم دیکھا یا وہ اُس کے بارے میں کچھ جانتا ہے۔ توبھی جب گواہوں کو قَسم کے لئے بُلایا جاتا ہے تو وہ گواہی دینے کے لئے سامنے نہیں آتا۔ اِس صورت میں وہ قصوروار ٹھہرتا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ کسی نے غیرارادی طور پر کسی ناپاک چیز کو چھو لیا ہے، خواہ وہ کسی جنگلی جانور، مویشی یا رینگنے والے جانور کی لاش کیوں نہ ہو۔ اِس صورت میں وہ ناپاک ہے اور قصوروار ٹھہرتا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ کسی نے غیرارادی طور پر کسی شخص کی ناپاکی کو چھو لیا ہے یعنی اُس کی کوئی ایسی چیز جس سے وہ ناپاک ہو گیا ہے۔ جب اُسے معلوم ہو جاتا ہے تو وہ قصوروار ٹھہرتا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ کسی نے بےپروائی سے کچھ کرنے کی قَسم کھائی ہے، چاہے وہ اچھا کام تھا یا غلط۔ جب وہ جان لیتا ہے کہ اُس نے کیا کِیا ہے تو وہ قصوروار ٹھہرتا ہے۔
اگر قصوروار شخص غربت کے باعث بھیڑ یا بکری نہ دے سکے تو وہ رب کو دو قمریاں یا دو جوان کبوتر پیش کرے، ایک گناہ کی قربانی کے لئے اور ایک بھسم ہونے والی قربانی کے لئے۔
اگر وہ شخص غربت کے باعث دو قمریاں یا دو جوان کبوتر بھی نہ دے سکے تو پھر وہ گناہ کی قربانی کے لئے ڈیڑھ کلو گرام بہترین میدہ پیش کرے۔ وہ اُس پر نہ تیل اُنڈیلے، نہ لُبان رکھے، کیونکہ یہ غلہ کی نذر نہیں بلکہ گناہ کی قربانی ہے۔
”اگر کسی نے بےایمانی کر کے غیرارادی طور پر رب کی مخصوص اور مُقدّس چیزوں کے سلسلے میں گناہ کیا ہو، ایسا شخص قصور کی قربانی کے طور پر رب کو بےعیب اور قیمت کے لحاظ سے مناسب مینڈھا یا بکرا پیش کرے۔ اُس کی قیمت مقدِس کی شرح کے مطابق مقرر کی جائے۔
جتنا نقصان مقدِس کو ہوا ہے اُتنا ہی وہ دے۔ اِس کے علاوہ وہ مزید 20 فیصد ادا کرے۔ وہ اُسے امام کو دے دے اور امام جانور کو قصور کی قربانی کے طور پر پیش کر کے اُس کا کفارہ دے۔ یوں اُسے معافی مل جائے گی۔
وہ قصور کی قربانی کے طور پر امام کے پاس ایک بےعیب اور قیمت کے لحاظ سے مناسب مینڈھا لے آئے۔ اُس کی قیمت مقدِس کی شرح کے مطابق مقرر کی جائے۔ پھر امام یہ قربانی اُس گناہ کے لئے چڑھائے جو قصوروار شخص نے غیرارادی طور پر کیا ہے۔ یوں اُسے معافی مل جائے گی۔