اُن پر افسوس جو مدد کے لئے مصر جاتے ہیں۔ اُن کی پوری اُمید گھوڑوں سے ہے، اور وہ اپنے متعدد رتھوں اور طاقت ور گھڑسواروں پر اعتماد رکھتے ہیں۔ افسوس، نہ وہ اسرائیل کے قدوس کی طرف نظر اُٹھاتے، نہ رب کی مرضی دریافت کرتے ہیں۔
مصری تو خدا نہیں بلکہ انسان ہیں۔ اور اُن کے گھوڑے عالمِ ارواح کے نہیں بلکہ فانی دنیا کے ہیں۔ جہاں بھی رب اپنا ہاتھ بڑھائے وہاں مدد کرنے والے مدد ملنے والوں سمیت ٹھو کر کھا کر گر جاتے ہیں، سب مل کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔
رب مجھ سے ہم کلام ہوا، ”صیون پر اُترتے وقت مَیں اُس جوان شیرببر کی طرح ہوں گا جو بکری مار کر اُس کے اوپر کھڑا غُراتا ہے۔ گو متعدد گلہ بانوں کو اُسے بھگانے کے لئے بُلایا جائے توبھی وہ اُن کی چیخوں سے دہشت نہیں کھاتا، نہ اُن کے شور شرابہ سے ڈر کر دبک جاتا ہے۔ رب الافواج اِسی طرح ہی کوہِ صیون پر اُتر کر لڑے گا۔
اب تک تم اپنے ہاتھوں سے بنے ہوئے سونے چاندی کے بُتوں کی پوجا کرتے ہو، اب تک تم اِس گناہ میں ملوث ہو۔ لیکن وہ دن آنے والا ہے جب ہر ایک اپنے بُتوں کو رد کرے گا۔
”اسور تلوار کی زد میں آ کر گر جائے گا۔ لیکن یہ کسی مرد کی تلوار نہیں ہو گی۔ جو تلوار اسور کو کھا جائے گی وہ فانی انسان کی نہیں ہو گی۔ اسور تلوار کے آگے آگے بھاگے گا، اور اُس کے جوانوں کو بیگار میں کام کرنا پڑے گا۔
اُس کی چٹان ڈر کے مارے جا تی رہے گی، اُس کے افسر لشکری جھنڈے کو دیکھ کر دہشت کھائیں گے۔“ یہ رب کا فرمان ہے جس کی آگ صیون میں بھڑکتی اور جس کا تنور یروشلم میں تپتا ہے۔