اسرائیل کو شفا دینا چاہتا ہوں تو اسرائیل کا قصور اور سامریہ کی بُرائی صاف ظاہر ہو جاتی ہے۔ کیونکہ فریب دینا اُن کا پیشہ ہی بن گیا ہے۔ چور گھروں میں نقب لگاتے جبکہ باہر گلی میں ڈاکوؤں کے جتھے لوگوں کو لُوٹ لیتے ہیں۔
لیکن وہ خیال نہیں کرتے کہ مجھے اُن کی تمام بُری حرکتوں کی یاد رہتی ہے۔ وہ نہیں سمجھتے کہ اب وہ اپنے غلط کاموں سے گھرے رہتے ہیں، کہ یہ گناہ ہر وقت مجھے نظر آتے ہیں۔
سب کے سب زناکار ہیں۔ وہ اُس تپتے تنور کی مانند ہیں جو اِتنا گرم ہے کہ نان بائی کو اُسے مزید چھیڑنے کی ضرورت نہیں۔ اگر وہ آٹا گوندھ کر اُس کے خمیر ہونے تک انتظار بھی کرے توبھی تنور اِتنا گرم رہتا ہے کہ روٹی پک جائے گی۔
یہ لوگ قریب آ کر تاک میں بیٹھ جاتے ہیں جبکہ اُن کے دل تنور کی طرح تپتے ہیں۔ پوری رات کو اُن کا غصہ سویا رہتا ہے، لیکن صبح کے وقت وہ بیدار ہو کر شعلہ زن آگ کی طرح دہکنے لگتا ہے۔
لیکن جوں ہی وہ کبھی اِدھر کبھی اُدھر دوڑیں گے تو مَیں اُن پر اپنا جال ڈالوں گا، اُنہیں اُڑتے ہوئے پرندوں کی طرح نیچے اُتاروں گا۔ مَیں اُن کی یوں تادیب کروں گا جس طرح اُن کی جماعت کو آگاہ کیا گیا ہے۔
اُن پر افسوس، کیونکہ وہ مجھ سے بھاگ گئے ہیں۔ اُن پر تباہی آئے، کیونکہ وہ مجھ سے سرکش ہو گئے ہیں۔ مَیں فدیہ دے کر اُنہیں چھڑانا چاہتا تھا، لیکن جواب میں وہ میرے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں۔
وہ خلوص دلی سے مجھ سے التجا نہیں کرتے۔ وہ بستر پر لیٹے لیٹے ”ہائے ہائے“ کرتے اور غلہ اور انگور کو حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو زخمی کرتے ہیں۔ لیکن مجھ سے وہ دُور رہتے ہیں۔
وہ توبہ کر کے واپس آ جاتے ہیں، لیکن میرے پاس نہیں، لہٰذا وہ ڈھیلی کمان جیسے بےکار ہو گئے ہیں۔ چنانچہ اُن کے راہنما کفر بکنے کے سبب سے تلوار کی زد میں آ کر ہلاک ہو جائیں گے۔ اِس بات کے باعث وہ مصر میں مذاق کا نشانہ بن جائیں گے۔