اُسے بتا، ’رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ اے شاہِ مصر فرعون، مَیں تجھ سے نپٹنے کو ہوں۔ بےشک تُو ایک بڑا اژدہا ہے جو دریائے نیل کی مختلف شاخوں کے بیچ میں لیٹا ہوا کہتا ہے کہ یہ دریا میرا ہی ہے، مَیں نے خود اُسے بنایا۔
لیکن مَیں تیرے منہ میں کانٹے ڈال کر تجھے دریا سے نکال لاؤں گا۔ میرے کہنے پر تیری ندیوں کی تمام مچھلیاں تیرے چھلکوں کے ساتھ لگ کر تیرے ساتھ پکڑی جائیں گی۔
مَیں تجھے اِن تمام مچھلیوں سمیت ریگستان میں پھینک چھوڑوں گا۔ تُو کھلے میدان میں گر کر پڑا رہے گا۔ نہ کوئی تجھے اکٹھا کرے گا، نہ جمع کرے گا بلکہ مَیں تجھے درندوں اور پرندوں کو کھلا دوں گا۔
جب اُنہوں نے تجھے پکڑنے کی کوشش کی تو تُو نے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اُن کے کندھے کو زخمی کر دیا۔ جب اُنہوں نے اپنا پورا وزن تجھ پر ڈالا تو تُو ٹوٹ گیا، اور اُن کی کمر ڈانواں ڈول ہو گئی۔
اِس لئے مَیں تجھ سے اور تیری ندیوں سے نپٹ لوں گا۔ مصر میں ہر طرف کھنڈرات نظر آئیں گے۔ شمال میں مجدال سے لے کر جنوبی شہر اسوان بلکہ ایتھوپیا کی سرحد تک مَیں مصر کو ویران و سنسان کر دوں گا۔
ارد گرد کے دیگر تمام ممالک کی طرح مَیں مصر کو بھی اُجاڑوں گا، ارد گرد کے دیگر تمام شہروں کی طرح مَیں مصر کے شہر بھی ملبے کے ڈھیر بنا دوں گا۔ چالیس سال تک اُن کی یہی حالت رہے گی۔ ساتھ ساتھ مَیں مصریوں کو مختلف اقوام و ممالک میں منتشر کر دوں گا۔
جو باقی ممالک کی نسبت چھوٹی ہو گی۔ آئندہ وہ دیگر قوموں پر اپنا رُعب نہیں ڈالیں گے۔ مَیں خود دھیان دوں گا کہ وہ آئندہ اِتنے کمزور رہیں کہ دیگر قوموں پر حکومت نہ کر سکیں۔
”اے آدم زاد، جب شاہِ بابل نبوکدنضر نے صور کا محاصرہ کیا تو اُس کی فوج کو سخت محنت کرنی پڑی۔ ہر سر گنجا ہوا، ہر کندھے کی جِلد چھل گئی۔ لیکن نہ اُسے اور نہ اُس کی فوج کو محنت کا مناسب اجر ملا۔
اِس لئے رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ مَیں شاہِ بابل نبوکدنضر کو مصر دے دوں گا۔ اُس کی دولت کو وہ اُٹھا کر لے جائے گا۔ اپنی فوج کو پیسے دینے کے لئے وہ مصر کو لُوٹ لے گا۔
جب یہ کچھ پیش آئے گا تو مَیں اسرائیل کو نئی طاقت دوں گا۔ اے حزقی ایل، اُس وقت مَیں تیرا منہ کھول دوں گا، اور تُو دوبارہ اُن کے درمیان بولے گا۔ تب وہ جان لیں گے کہ مَیں ہی رب ہوں۔“