اُنہیں بتا، ’رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ ایک بڑا عقاب اُڑ کر ملکِ لبنان میں آیا۔ اُس کے بڑے بڑے پَر اور لمبے لمبے پنکھ تھے، اُس کے گھنے اور رنگین بال و پَر چمک رہے تھے۔ لبنان میں اُس نے ایک دیودار کے درخت کی چوٹی پکڑ لی
تب انگور کی بیل پھوٹ نکلی جو زیادہ اونچی نہ ہوئی بلکہ چاروں طرف پھیلتی گئی۔ شاخوں کا رُخ عقاب کی طرف رہا جبکہ اُس کی جڑیں زمین میں دھنستی گئیں۔ چنانچہ اچھی بیل بن گئی جو پھوٹتی پھوٹتی نئی شاخیں نکالتی گئی۔
لیکن پھر ایک اَور بڑا عقاب آیا۔ اُس کے بھی بڑے بڑے پَر اور گھنے گھنے بال و پَر تھے۔ اب مَیں کیا دیکھتا ہوں، بیل دوسرے عقاب کی طرف رُخ کرنے لگتی ہے۔ اُس کی جڑیں اور شاخیں اُس کھیت میں نہ رہیں جس میں اُسے لگایا گیا تھا بلکہ وہ دوسرے عقاب سے پانی ملنے کی اُمید رکھ کر اُسی کی طرف پھیلنے لگی۔
تعجب یہ تھا کہ اُسے اچھی زمین میں لگایا گیا تھا، جہاں اُسے کثرت کا پانی حاصل تھا۔ وہاں وہ خوب پھیل کر پھل لا سکتی تھی، وہاں وہ زبردست بیل بن سکتی تھی۔‘
اب رب قادرِ مطلق پوچھتا ہے، ’کیا بیل کی نشو و نما جاری رہے گی؟ ہرگز نہیں! کیا اُسے جڑ سے اُکھاڑ کر پھینکا نہیں جائے گا؟ ضرور! کیا اُس کا پھل چھین نہیں لیا جائے گا؟ بےشک بلکہ آخرکار اُس کی تازہ تازہ کونپلیں بھی سب کی سب مُرجھا کر ختم ہو جائیں گی۔ تب اُسے جڑ سے اُکھاڑنے کے لئے نہ زیادہ لوگوں، نہ طاقت کی ضرورت ہو گی۔
گو اُسے لگایا گیا ہے توبھی بیل کی نشو و نما جاری نہیں رہے گی۔ جوں ہی مشرقی لُو اُس پر چلے گی وہ مکمل طور پر مُرجھا جائے گی۔ جس کھیت میں اُسے لگایا گیا وہیں وہ ختم ہو جائے گی‘۔“
”اِس سرکش قوم سے پوچھ، ’کیا تجھے اِس تمثیل کی سمجھ نہیں آئی؟‘ تب اُنہیں اِس کا مطلب سمجھا دے۔ ’بابل کے بادشاہ نے یروشلم پر حملہ کیا۔ وہ اُس کے بادشاہ اور افسروں کو گرفتار کر کے اپنے ملک میں لے گیا۔
اُس نے یہوداہ کے شاہی خاندان میں سے ایک کو چن لیا اور اُس کے ساتھ عہد باندھ کر اُسے تخت پر بٹھا دیا۔ نئے بادشاہ نے بابل سے وفادار رہنے کی قَسم کھائی۔ بابل کے بادشاہ نے یہوداہ کے راہنماؤں کو بھی جلاوطن کر دیا
توبھی یہوداہ کا بادشاہ باغی ہو گیا اور اپنے قاصد مصر بھیجے تاکہ وہاں سے گھوڑے اور فوجی منگوائیں۔ کیا اُسے کامیابی حاصل ہو گی؟ کیا جس نے ایسی حرکتیں کی ہیں بچ نکلے گا؟ ہرگز نہیں! کیا جس نے عہد توڑ لیا ہے وہ بچے گا؟ ہر گز نہیں!
رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ میری حیات کی قَسم، اُس شخص نے قَسم کے تحت شاہِ بابل سے عہد باندھا ہے، لیکن اب اُس نے یہ قَسم حقیر جان کر عہد کو توڑ ڈالا ہے۔ اِس لئے وہ بابل میں وفات پائے گا، اُس بادشاہ کے ملک میں جس نے اُسے تخت پر بٹھایا تھا۔
جب بابل کی فوج یروشلم کے ارد گرد پُشتے اور بُرج بنا کر اُس کا محاصرہ کرے گی تاکہ بہتوں کو مار ڈالے تو فرعون اپنی بڑی فوج اور متعدد فوجیوں کو لے کر اُس کی مدد کرنے نہیں آئے گا۔
کیونکہ یہوداہ کے بادشاہ نے عہد کو توڑ کر وہ قَسم حقیر جانی ہے جس کے تحت یہ باندھا گیا۔ گو اُس نے شاہِ بابل سے ہاتھ ملا کر عہد کی تصدیق کی تھی توبھی بےوفا ہو گیا، اِس لئے وہ نہیں بچے گا۔
رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ میری حیات کی قَسم، اُس نے میرے ہی عہد کو توڑ ڈالا، میری ہی قَسم کو حقیر جانا ہے۔ اِس لئے مَیں عہد توڑنے کے تمام نتائج اُس کے سر پر لاؤں گا۔
اور جب مَیں اُسے اسرائیل کی بلندیوں پر لگا دوں گا تو اُس کی شاخیں پھوٹ نکلیں گی، اور وہ پھل لا کر شاندار درخت بنے گا۔ ہر قسم کے پرندے اُس میں بسیرا کریں گے، سب اُس کی شاخوں کے سائے میں پناہ لیں گے۔
تب ملک کے تمام درخت جان لیں گے کہ مَیں رب ہوں۔ مَیں ہی اونچے درخت کو خاک میں ملا دیتا، اور مَیں ہی چھوٹے درخت کو بڑا بنا دیتا ہوں۔ مَیں ہی سایہ دار درخت کو سوکھنے دیتا اور مَیں ہی سوکھے درخت کو پھلنے پھولنے دیتا ہوں۔ یہ میرا، رب کا فرمان ہے، اور مَیں یہ کروں گا بھی‘۔“