اِس تجربے کے بعد داؤد سوچنے لگا، ”اگر مَیں یہیں ٹھہر جاؤں تو کسی دن ساؤل مجھے مار ڈالے گا۔ بہتر ہے کہ اپنی حفاظت کے لئے فلستیوں کے ملک میں چلا جاؤں۔ تب ساؤل پورے اسرائیل میں میرا کھوج لگانے سے باز آئے گا، اور مَیں محفوظ رہوں گا۔“
اُن کے خاندان ساتھ تھے۔ داؤد کی دو بیویاں اخی نوعم یزرعیلی اور نابال کی بیوہ ابی جیل کرملی بھی ساتھ تھیں۔ اَکیس نے اُنہیں جات شہر میں رہنے کی اجازت دی۔
ایک دن داؤد نے اَکیس سے بات کی، ”اگر آپ کی نظرِ کرم مجھ پر ہے تو مجھے دیہات کی کسی آبادی میں رہنے کی اجازت دیں۔ کیا ضرورت ہے کہ مَیں یہاں آپ کے ساتھ دار الحکومت میں رہوں؟“
صِقلاج سے داؤد اپنے آدمیوں کے ساتھ مختلف جگہوں پر حملہ کرنے کے لئے نکلتا رہا۔ کبھی وہ جسوریوں پر دھاوا بولتے، کبھی جرزیوں یا عمالیقیوں پر۔ یہ قبیلے قدیم زمانے سے یہوداہ کے جنوب میں شُور اور مصر کی سرحد تک رہتے تھے۔
جب بھی کوئی مقام داؤد کے قبضے میں آ جاتا تو وہ کسی بھی مرد یا عورت کو زندہ نہ رہنے دیتا لیکن بھیڑبکریوں، گائےبَیلوں، گدھوں، اونٹوں اور کپڑوں کو اپنے ساتھ صِقلاج لے جاتا۔ جب بھی داؤد کسی حملے سے واپس آ کر بادشاہ اَکیس سے ملتا
تو وہ پوچھتا، ”آج آپ نے کس پر چھاپہ مارا؟“ پھر داؤد جواب دیتا، ”یہوداہ کے جنوبی علاقے پر،“ یا ”یرحمئیلیوں کے جنوبی علاقے پر،“ یا ”قینیوں کے جنوبی علاقے پر۔“
جب بھی داؤد کسی آبادی پر حملہ کرتا تو وہ تمام باشندوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیتا اور نہ مرد، نہ عورت کو زندہ چھوڑ کر جات لاتا۔ کیونکہ اُس نے سوچا، ”ایسا نہ ہو کہ فلستیوں کو پتا چلے کہ مَیں اصل میں اسرائیلی آبادیوں پر حملہ نہیں کر رہا۔“ جتنا وقت داؤد نے فلستی ملک میں گزارا وہ ایسا ہی کرتا رہا۔
اَکیس نے داؤد پر پورا بھروسا کیا، کیونکہ اُس نے سوچا، ”اب داؤد کو ہمیشہ تک میری خدمت میں رہنا پڑے گا، کیونکہ ایسی حرکتوں سے اُس کی اپنی قوم اُس سے سخت متنفر ہو گئی ہے۔“