I Samuel 27

داوود در دل خود گفت: «من بالاخره یک روز به دست شائول کشته می‌شوم. پس بهتر است که به کشور فلسطینیان فرار کنم تا شائول از تعقیب من در اسرائیل دست بردارد و من از دستش آرام شوم.»
اِس تجربے کے بعد داؤد سوچنے لگا، ”اگر مَیں یہیں ٹھہر جاؤں تو کسی دن ساؤل مجھے مار ڈالے گا۔ بہتر ہے کہ اپنی حفاظت کے لئے فلستیوں کے ملک میں چلا جاؤں۔ تب ساؤل پورے اسرائیل میں میرا کھوج لگانے سے باز آئے گا، اور مَیں محفوظ رہوں گا۔“
پس داوود با ششصد نفر از همراهان خود پیش اخیش پسر معوك، پادشاه جت رفت.
چنانچہ وہ اپنے 600 آدمیوں کو لے کر جات کے بادشاہ اَکیس بن معوک کے پاس چلا گیا۔
همراهانش هر کدام با فامیل خود و داوود هم با دو زن خود، یعنی اخینوعم یزرعیلی و ابیجایل کرملی، زن نابال در آنجا ساکن شدند.
اُن کے خاندان ساتھ تھے۔ داؤد کی دو بیویاں اخی نوعم یزرعیلی اور نابال کی بیوہ ابی جیل کرملی بھی ساتھ تھیں۔ اَکیس نے اُنہیں جات شہر میں رہنے کی اجازت دی۔
خبر فرار داوود به جت، به گوش شائول رسید. پس از تعقیب داوود دست کشید.
جب ساؤل کو خبر ملی کہ داؤد نے جات میں پناہ لی ہے تو وہ اُس کا کھوج لگانے سے باز آیا۔
داوود به اخیش گفت: «اگر به من لطف کنی می‌خواهم به جای پایتخت در یکی از شهرهای اطراف زندگی کنم.»
ایک دن داؤد نے اَکیس سے بات کی، ”اگر آپ کی نظرِ کرم مجھ پر ہے تو مجھے دیہات کی کسی آبادی میں رہنے کی اجازت دیں۔ کیا ضرورت ہے کہ مَیں یہاں آپ کے ساتھ دار الحکومت میں رہوں؟“
اخیش موافقت کرد و شهر صقلغ را که تا به امروز هم به پادشاهان یهودا متعلّق است، به او داد.
اَکیس متفق ہوا۔ اُس دن اُس نے اُسے صِقلاج شہر دے دیا۔ یہ شہر اُس وقت سے یہوداہ کے بادشاہوں کی ملکیت میں رہا ہے۔
به این ترتیب داوود برای مدّت یک سال و چهار ماه در بین فلسطینیان زندگی کرد.
داؤد ایک سال اور چار مہینے فلستی ملک میں ٹھہرا رہا۔
داوود و همراهانش به جشوریان، جزریان و عمالقه که از روزگاران قدیم در امتداد شور و مصر زندگی می‌نمودند، حمله می‌کردند.
صِقلاج سے داؤد اپنے آدمیوں کے ساتھ مختلف جگہوں پر حملہ کرنے کے لئے نکلتا رہا۔ کبھی وہ جسوریوں پر دھاوا بولتے، کبھی جرزیوں یا عمالیقیوں پر۔ یہ قبیلے قدیم زمانے سے یہوداہ کے جنوب میں شُور اور مصر کی سرحد تک رہتے تھے۔
و به هر جایی که حمله می‌کردند، تمام زنان و مردان آنجا را می‌کشتند و گوسفند، گاو، الاغ، شتر و حتّی لباس آنها را هم گرفته پیش اخیش برمی‌گشتند.
جب بھی کوئی مقام داؤد کے قبضے میں آ جاتا تو وہ کسی بھی مرد یا عورت کو زندہ نہ رہنے دیتا لیکن بھیڑبکریوں، گائےبَیلوں، گدھوں، اونٹوں اور کپڑوں کو اپنے ساتھ صِقلاج لے جاتا۔ جب بھی داؤد کسی حملے سے واپس آ کر بادشاہ اَکیس سے ملتا
اخیش می‌پرسید: «امروز به کجا حمله کردید؟» داوود جواب می‌داد: «به جنوب یهودا» یا «به مردم یرحمئیل» یا «به قینیان.»
تو وہ پوچھتا، ”آج آپ نے کس پر چھاپہ مارا؟“ پھر داؤد جواب دیتا، ”یہوداہ کے جنوبی علاقے پر،“ یا ”یرحمئیلیوں کے جنوبی علاقے پر،“ یا ”قینیوں کے جنوبی علاقے پر۔“
داوود در حمله‌های خود زن یا مردی را زنده نمی‌گذاشت، مبادا به جت بیایند و گزارش کارهای او را بدهند. داوود در تمام مدّتی که در کشور فلسطینیان زندگی می‌کرد، کارش همین بود.
جب بھی داؤد کسی آبادی پر حملہ کرتا تو وہ تمام باشندوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیتا اور نہ مرد، نہ عورت کو زندہ چھوڑ کر جات لاتا۔ کیونکہ اُس نے سوچا، ”ایسا نہ ہو کہ فلستیوں کو پتا چلے کہ مَیں اصل میں اسرائیلی آبادیوں پر حملہ نہیں کر رہا۔“ جتنا وقت داؤد نے فلستی ملک میں گزارا وہ ایسا ہی کرتا رہا۔
اخیش حرف داوود را باور می‌نمود و فکر می‌کرد که قوم اسرائیل بکلّی از او متنفّر هستند و حالا برای همیشه پیش او می‌ماند و او را خدمت می‌کند.
اَکیس نے داؤد پر پورا بھروسا کیا، کیونکہ اُس نے سوچا، ”اب داؤد کو ہمیشہ تک میری خدمت میں رہنا پڑے گا، کیونکہ ایسی حرکتوں سے اُس کی اپنی قوم اُس سے سخت متنفر ہو گئی ہے۔“