اسرائیل کے قلعہ بند شہر نیست و نابود ہو جائیں گے، اور دمشق کی سلطنت جاتی رہے گی۔ شام کے جو لوگ بچ نکلیں گے اُن کا اور اسرائیل کی شان و شوکت کا ایک ہی انجام ہو گا۔“ یہ ہے رب الافواج کا فرمان۔
فصل کی کٹائی کی سی حالت ہو گی۔ جس طرح کاٹنے والا ایک ہاتھ سے گندم کے ڈنٹھل کو پکڑ کر دوسرے سے بالوں کو کاٹتا ہے اُسی طرح اسرائیلیوں کو کاٹا جائے گا۔ اور جس طرح وادیِ رفائیم میں غریب لوگ فصل کاٹنے والوں کے پیچھے پیچھے چل کر بچی ہوئی بالیوں کو چنتے ہیں اُسی طرح اسرائیل کے بچے ہوؤں کو چنا جائے گا۔
تاہم کچھ نہ کچھ بچا رہے گا، اُن دو چار زیتونوں کی طرح جو چنتے وقت درخت کی چوٹی پر رہ جاتے ہیں۔ درخت کو ڈنڈے سے جھاڑنے کے باوجود کہیں نہ کہیں چند ایک لگے رہیں گے۔“ یہ ہے رب، اسرائیل کے خدا کا فرمان۔
اُس وقت اسرائیلی اپنے قلعہ بند شہروں کو یوں چھوڑیں گے جس طرح کنعانیوں نے اپنے جنگلوں اور پہاڑوں کی چوٹیوں کو اسرائیلیوں کے آگے آگے چھوڑا تھا۔ سب کچھ ویران و سنسان ہو گا۔
افسوس، تُو اپنی نجات کے خدا کو بھول گیا ہے۔ تجھے وہ چٹان یاد نہ رہی جس پر تُو پناہ لے سکتا ہے۔ چنانچہ اپنے پیارے دیوتاؤں کے باغ لگاتا جا، اور اُن میں پردیسی انگور کی قلمیں لگاتا جا۔
شاید ہی وہ لگاتے وقت تیزی سے اُگنے لگیں، شاید ہی اُن کے پھول اُسی صبح کھلنے لگیں۔ توبھی تیری محنت عبث ہے۔ تُو کبھی بھی اُن کے پھل سے لطف اندوز نہیں ہو گا بلکہ محض بیماری اور لاعلاج درد کی فصل کاٹے گا۔
کیونکہ غیرقومیں پہاڑ نما لہروں کی طرح متلاطم ہیں۔ لیکن رب اُنہیں ڈانٹے گا تو وہ دُور دُور بھاگ جائیں گی۔ جس طرح پہاڑوں پر بھوسا ہَوا کے جھونکوں سے اُڑ جاتا اور لُڑھک بوٹی آندھی میں چکر کھانے لگتی ہے اُسی طرح وہ فرار ہو جائیں گی۔
شام کو اسرائیل سخت گھبرا جائے گا، لیکن پَو پھٹنے سے پہلے پہلے اُس کے دشمن مر گئے ہوں گے۔ یہی ہمیں لُوٹنے والوں کا نصیب، ہماری غارت گری کرنے والوں کا انجام ہو گا۔