وہاں اُس کی ملاقات ایک یہودی سے ہوئی جس کا نام اکوِلہ تھا۔ وہ پنطس کا رہنے والا تھا اور تھوڑی دیر پہلے اپنی بیوی پرسکلہ سمیت اٹلی سے آیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ شہنشاہ کلودیُس نے حکم صادر کیا تھا کہ تمام یہودی روم کو چھوڑ کر چلے جائیں۔ اُن لوگوں کے پاس پولس گیا
جب سیلاس اور تیمُتھیُس مکدُنیہ سے آئے تو پولس اپنا پورا وقت کلام سنانے میں صرف کرنے لگا۔ اُس نے یہودیوں کو گواہی دی کہ عیسیٰ کلامِ مُقدّس میں بیان کیا گیا مسیح ہے۔
لیکن جب وہ اُس کی مخالفت کر کے اُس کی تذلیل کرنے لگے تو اُس نے احتجاج میں اپنے کپڑوں سے گرد جھاڑ کر کہا، ”آپ خود اپنی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں، مَیں بےقصور ہوں۔ اب سے مَیں غیریہودیوں کے پاس جایا کروں گا۔“
اور کرسپُس جو عبادت خانے کا راہنما تھا اپنے گھرانے سمیت خداوند پر ایمان لایا۔ کُرِنتھس کے بہت سارے اَور لوگوں نے بھی جب پولس کی باتیں سنیں تو ایمان لائے اور بپتسمہ لیا۔
پولس جواب میں کچھ کہنے کو تھا کہ گلیو خود یہودیوں سے مخاطب ہوا، ”سنیں، یہودی مردو! اگر آپ کا الزام کوئی ناانصافی یا سنگین جرم ہوتا تو آپ کی بات قابلِ برداشت ہوتی۔
لیکن آپ کا جھگڑا مذہبی تعلیم، ناموں اور آپ کی یہودی شریعت سے تعلق رکھتا ہے، اِس لئے اُسے خود حل کریں۔ مَیں اِس معاملے میں فیصلہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔“
اِس کے بعد بھی پولس بہت دن کُرِنتھس میں رہا۔ پھر بھائیوں کو خیرباد کہہ کر وہ قریب کے شہر کنخریہ گیا جہاں اُس نے کسی مَنت کے پورے ہونے پر اپنے سر کے بال منڈوا دیئے۔ اِس کے بعد وہ پرسکلہ اور اکوِلہ کے ساتھ جہاز پر سوار ہو کر ملکِ شام کے لئے روانہ ہوا۔
اُسے خداوند کی راہ کے بارے میں تعلیم دی گئی تھی اور وہ بڑی سرگرمی سے لوگوں کو عیسیٰ کے بارے میں سکھاتا رہا۔ اُس کی یہ تعلیم صحیح تھی اگرچہ وہ ابھی تک صرف یحییٰ کا بپتسمہ جانتا تھا۔
اِفسس کے یہودی عبادت خانے میں وہ بڑی دلیری سے کلام کرنے لگا۔ یہ سن کر پرسکلہ اور اکوِلہ نے اُسے ایک طرف لے جا کر اُس کے سامنے اللہ کی راہ کو مزید تفصیل سے بیان کیا۔
اپلّوس صوبہ اخیہ جانے کا خیال رکھتا تھا تو اِفسس کے بھائیوں نے اُس کی حوصلہ افزائی کی۔ اُنہوں نے وہاں کے شاگردوں کو خط لکھا کہ وہ اُس کا استقبال کریں۔ جب وہ وہاں پہنچا تو اُن کے لئے بڑی مدد کا باعث بنا جو اللہ کے فضل سے ایمان لائے تھے،