Romans 3

تو کیا یہودی ہونے کا یا ختنہ کا کوئی فائدہ ہے؟
پس یهودیان چه مزیّتی بر غیر یهودیان دارند؟ یا ختنه چه ارزشی دارد؟
جی ہاں، ہر طرح کا! اوّل تو یہ کہ اللہ کا کلام اُن کے سپرد کیا گیا ہے۔
البتّه از هر لحاظ ارزش فراوان دارد، اول آنكه خدا كلام خود را با یهودیان سپرد.
اگر اُن میں سے بعض بےوفا نکلے تو کیا ہوا؟ کیا اِس سے اللہ کی وفاداری بھی ختم ہو جائے گی؟
امّا اگر بعضی از آنها امین نبودند آیا بی‌وفایی آنها وفاداری خدا را باطل می‌سازد؟ ‌
کبھی نہیں! لازم ہے کہ اللہ سچا ٹھہرے گو ہر انسان جھوٹا ہے۔ یوں کلامِ مُقدّس میں لکھا ہے، ”لازم ہے کہ تُو بولتے وقت راست ٹھہرے اور عدالت کرتے وقت غالب آئے۔“
به هیچ وجه! حتّی اگر همهٔ انسانها دروغگو باشند خدا راستگو است، ‌چنانكه كتاب‌مقدّس می‌فرماید: «‌راستگویی تو باید در سخن گفتن معلوم، و حقانیّت تو در محاكمه ثابت شود.»
کوئی کہہ سکتا ہے، ”ہماری ناراستی کا ایک اچھا مقصد ہوتا ہے، کیونکہ اِس سے لوگوں پر اللہ کی راستی ظاہر ہوتی ہے۔ تو کیا اللہ بےانصاف نہیں ہو گا اگر وہ اپنا غضب ہم پر نازل کرے؟“ (مَیں انسانی خیال پیش کر رہا ہوں)۔
امّا اگر شرارت ما نیكی مطلق خدا را بیشتر آشكار می‌سازد چه بگوییم؟ آیا می‌توانیم بگوییم كه هرگاه خدا ما را مجازات می‌کند بی‌انصافی می‌کند؟ (مثل آدمیان سخن می‌گویم)
ہرگز نہیں! اگر اللہ راست نہ ہوتا تو پھر وہ دنیا کی عدالت کس طرح کر سکتا؟
به هیچ وجه! اگر خدا عادل نباشد چطور می‌تواند دنیا را داوری كند؟
شاید کوئی اَور اعتراض کرے، ”اگر میرا جھوٹ اللہ کی سچائی کو کثرت سے نمایاں کرتا ہے اور یوں اُس کا جلال بڑھتا ہے تو وہ مجھے کیوں کر گناہ گار قرار دے سکتا ہے؟“
امّا اگر دروغ من در مقابل راستی خدا جلال او را بیشتر آشكار می‌کند، چرا باز هم به عنوان یک گناهكار محكوم می‌شوم؟
کچھ لوگ ہم پر یہ کفر بھی بکتے ہیں کہ ہم کہتے ہیں، ”آؤ، ہم بُرائی کریں تاکہ بھلائی نکلے۔“ انصاف کا تقاضا ہے کہ ایسے لوگوں کو مجرم ٹھہرایا جائے۔
پس چرا نگوییم: «‌بیایید بدی كنیم تا از آن خوبی به بار آید؟» در واقع عدّه‌ای افترا زنان گزارش داده‌‌اند كه ما چنین چیزی گفته‌ایم، محکومیّت این اشخاص بجاست.
اب ہم کیا کہیں؟ کیا ہم یہودی دوسروں سے برتر ہیں؟ بالکل نہیں۔ ہم تو پہلے ہی یہ الزام لگا چکے ہیں کہ یہودی اور یونانی سب ہی گناہ کے قبضے میں ہیں۔
پس چه؟ آیا ما یهودیان از غیر یهودیان وضع بهتری داریم؟ ابداً، پیش از این نشان دادیم كه یهودیان و غیر یهودیان، همه اسیر گناه هستند.
کلامِ مُقدّس میں یوں لکھا ہے، ”کوئی نہیں جو راست باز ہے، ایک بھی نہیں۔
چنانکه كتاب ‌مقدّس می‌فرماید: «حتّی یک نفر نیست كه کاملاً نیک باشد.
کوئی نہیں جو سمجھ دار ہے، کوئی نہیں جو اللہ کا طالب ہے۔
كسی نیست كه بفهمد یا جویای خدا باشد.
افسوس، سب صحیح راہ سے بھٹک گئے، سب کے سب بگڑ گئے ہیں۔ کوئی نہیں جو بھلائی کرتا ہو، ایک بھی نہیں۔
همهٔ آدمیان از خدا روگردانیده‌اند، همگی از راه راست منحرف شده‌اند؛ حتّی یک نفر نیكوكار نیست.
اُن کا گلا کھلی قبر ہے، اُن کی زبان فریب دیتی ہے۔ اُن کے ہونٹوں میں سانپ کا زہر ہے۔
گلویشان مثل قبر روباز است، زبانشان را برای فریب دادن بكار می‌‌برند و از لبهایشان سخنانی کُشنده مانند زهرمار جاری است.
اُن کا منہ لعنت اور کڑواہٹ سے بھرا ہے۔
دهانشان پر از دشنامهای زننده است،
اُن کے پاؤں خون بہانے کے لئے جلدی کرتے ہیں۔
و پاهایشان برای خونریزی شتابان است.
اپنے پیچھے وہ تباہی و بربادی چھوڑ جاتے ہیں،
به هر جا كه می‌روند، ویرانی و بدبختی بجا می‌گذارند،
اور وہ سلامتی کی راہ نہیں جانتے۔
و راه صلح و سلامتی را نشناخته‌اند.
اُن کی آنکھوں کے سامنے خدا کا خوف نہیں ہوتا۔“
خداترسی به نظر ایشان نمی‌رسد.»
اب ہم جانتے ہیں کہ شریعت جو کچھ فرماتی ہے اُنہیں فرماتی ہے جن کے سپرد وہ کی گئی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہر انسان کے بہانے ختم کئے جائیں اور تمام دنیا اللہ کے سامنے مجرم ٹھہرے۔
ما می‌دانیم كه روی سخن در شریعت با پیروان شریعت است تا هر دهانی بسته شود و تمام دنیا خود را نسبت به خدا مُلزَم و مسئول بدانند.
کیونکہ شریعت کے تقاضے پورے کرنے سے کوئی بھی اُس کے سامنے راست باز نہیں ٹھہر سکتا، بلکہ شریعت کا کام یہ ہے کہ ہمارے اندر گناہ گار ہونے کا احساس پیدا کرے۔
زیرا هیچ انسانی در نظر خدا با انجام احكام شریعت نیک شمرده نمی‌شود. كار شریعت این است كه انسان گناه را بشناسد.
لیکن اب اللہ نے ہم پر ایک راہ کا انکشاف کیا ہے جس سے ہم شریعت کے بغیر ہی اُس کے سامنے راست باز ٹھہر سکتے ہیں۔ توریت اور نبیوں کے صحیفے بھی اِس کی تصدیق کرتے ہیں۔
امّا اكنون نیكی مطلق خدا كه تورات و انبیا بر آن شهادت داده‌اند آشکار شده است. خدا بدون در نظر گرفتن شریعت
راہ یہ ہے کہ جب ہم عیسیٰ مسیح پر ایمان لاتے ہیں تو اللہ ہمیں راست باز قرار دیتا ہے۔ اور یہ راہ سب کے لئے ہے۔ کیونکہ کوئی بھی فرق نہیں،
و فقط از راه ایمان به عیسی مسیح همهٔ ایمانداران را نیک می‌شمارد، زیرا هیچ تفاوتی نیست، ‌
سب نے گناہ کیا، سب اللہ کے اُس جلال سے محروم ہیں جس کا وہ تقاضا کرتا ہے،
همه گناه کرده‌اند و از جلال خدا محرومند.
اور سب مفت میں اللہ کے فضل ہی سے راست باز ٹھہرائے جاتے ہیں، اُس فدئیے کے وسیلے سے جو مسیح عیسیٰ نے دیا۔
امّا با فیض خدا، همه به وساطت عیسی مسیح كه آنان را آزاد می‌سازد، ‌به طور رایگان، نیک محسوب می‌شوند.
کیونکہ اللہ نے عیسیٰ کو اُس کے خون کے باعث کفارہ کا وسیلہ بنا کر پیش کیا، ایسا کفارہ جس سے ایمان لانے والوں کو گناہوں کی معافی ملتی ہے۔ یوں اللہ نے اپنی راستی ظاہر کی، پہلے ماضی میں جب وہ اپنے صبر و تحمل میں گناہوں کی سزا دینے سے باز رہا
زیرا خدا مسیح را به عنوان وسیله‌‌ای برای آمرزش گناهان -‌كه با ایمان به خون او به دست می‌آید- ‌ در مقابل چشم همه قرار داده و با این كار خدا عدالت خود را ثابت نمود زیرا در گذشته به‌سبب بردباری خود، گناهان آدمیان را نادیده گرفت
اور اب موجودہ زمانے میں بھی۔ اِس سے وہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ راست ہے اور ہر ایک کو راست باز ٹھہراتا ہے جو عیسیٰ پر ایمان لایا ہے۔
تا در این زمان، عدالت خدا کاملاً به ثبوت برسد، یعنی ثابت شود كه خدا عادل است و كسی را كه به عیسی ایمان می‌آورد، نیک می‌شمارد.
اب ہمارا فخر کہاں رہا؟ اُسے تو ختم کر دیا گیا ہے۔ کس شریعت سے؟ کیا اعمال کی شریعت سے؟ نہیں، بلکہ ایمان کی شریعت سے۔
پس جای بالیدن کجاست؟ جایی برای آن نیست. ‌به چه دلیل؟ آیا به‌ دلیل انجام دادن شریعت؟ خیر، بلكه چون ایمان می‌آوریم.
کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ انسان کو ایمان سے راست باز ٹھہرایا جاتا ہے، نہ کہ اعمال سے۔
زیرا ما به یقین می‌دانیم كه به وسیلهٔ ایمان، بدون اجرای شریعت می‌توانیم کاملاً نیک محسوب شویم.
کیا اللہ صرف یہودیوں کا خدا ہے؟ غیریہودیوں کا نہیں؟ ہاں، غیریہودیوں کا بھی ہے۔
آیا خدا فقط خدای یهودیان است؟ مگر خدای غیر یهودیان هم نیست؟ البتّه هست.
کیونکہ اللہ ایک ہی ہے جو مختون اور نامختون دونوں کو ایمان ہی سے راست باز ٹھہرائے گا۔
خدا یكی است و یهودیان را بر اساس ایمان و غیر یهودیان را نیز از راه ایمان کاملاً نیک می‌سازد.
پھر کیا ہم شریعت کو ایمان سے منسوخ کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں، بلکہ ہم شریعت کو قائم رکھتے ہیں۔
آیا این به آن معنی است كه با ایمان، شریعت را از میان برمی‌داریم؟ خیر، هرگز! بلكه آن را استوار می‌سازیم.