Psalms 137

جب صیون کی یاد آئی تو ہم بابل کی نہروں کے کنارے ہی بیٹھ کر رو پڑے۔
در کنار رودخانه‌های بابل نشستیم و به یاد صهیون گریه کردیم.
ہم نے وہاں کے سفیدہ کے درختوں سے اپنے سرود لٹکا دیئے،
آلات موسیقی خود را بر شاخه‌های درختان بید آویختیم.
کیونکہ جنہوں نے ہمیں گرفتار کیا تھا اُنہوں نے ہمیں وہاں گیت گانے کو کہا، اور جو ہمارا مذاق اُڑاتے ہیں اُنہوں نے خوشی کا مطالبہ کیا، ”ہمیں صیون کا کوئی گیت سناؤ!“
زیرا کسانی‌که ما را به اسارت برده بودند، از ما خواستند تا برایشان یکی از سرودهای صهیون را بخوانیم و آنها را سرگرم کنیم.
لیکن ہم اجنبی ملک میں کس طرح رب کا گیت گائیں؟
امّا چگونه می‌توانستیم سرود خداوند را در دیار بیگانه بسراییم؟
اے یروشلم، اگر مَیں تجھے بھول جاؤں تو میرا دہنا ہاتھ سوکھ جائے۔
ای اورشلیم، اگر تو را فراموش کنم، دست راستم خشک گردد تا دیگر نتوانم چنگ بنوازم.
اگر مَیں تجھے یاد نہ کروں اور یروشلم کو اپنی عظیم ترین خوشی سے زیادہ قیمتی نہ سمجھوں تو میری زبان تالو سے چپک جائے۔
اگر تو را ای اورشلیم، به یاد نیاورم و تو را بر همهٔ شادی‌ها ترجیح ندهم، زبانم به کامم بچسبد و لال شوم.
اے رب، وہ کچھ یاد کر جو ادومیوں نے اُس دن کیا جب یروشلم دشمن کے قبضے میں آیا۔ اُس وقت وہ بولے، ”اُسے ڈھا دو! بنیادوں تک اُسے گرا دو!“
خداوندا، به یادآور، روزی را که اَدومیان اورشلیم را تسخیر کردند و فریاد می‌زدند: «آن را با خاک یکسان کنید.»
اے بابل بیٹی جو تباہ کرنے پر تُلی ہوئی ہے، مبارک ہے وہ جو تجھے اُس کا بدلہ دے جو تُو نے ہمارے ساتھ کیا ہے۔
ای بابل، تو ویران خواهی شد. خوشا به حال کسی‌که آن چه تو بر سر ما آوردی، بر سر خودت بیاورد.
مبارک ہے وہ جو تیرے بچوں کو پکڑ کر پتھر پر پٹخ دے۔
خوشا به حال کسی‌که کودکان تو را بگیرد و آنها را به صخره‌ها بکوبد.