Judges 10

ابی مَلِک کی موت کے بعد تولع بن فُوّہ بن دودو اسرائیل کو بچانے کے لئے اُٹھا۔ وہ اِشکار کے قبیلے سے تھا اور افرائیم کے پہاڑی علاقے کے شہر سمیر میں رہائش پذیر تھا۔
بعد از مرگ ابیملك، یک نفر از طایفهٔ یساکار به نام تُولَع پسر فُواه نوهٔ دودا، برای نجات قوم اسرائیل آمد. او در شهر شامیر در کوهستان افرایم زندگی می‌کرد.
تولع 23 سال اسرائیل کا قاضی رہا۔ پھر وہ فوت ہوا اور سمیر میں دفنایا گیا۔
او مدّت بیست و سه سال بر اسرائیل رهبری کرد. بعد از وفاتش او را در شامیر به خاک سپردند.
اُس کے بعد جِلعاد کا رہنے والا یائیر قاضی بن گیا۔ اُس نے 22 سال اسرائیل کی راہنمائی کی۔
بعد از او یائیر جلعادی، بیست و دو سال حاکم اسرائیل بود.
یائیر کے 30 بیٹے تھے۔ ہر بیٹے کا ایک ایک گدھا اور جِلعاد میں ایک ایک آبادی تھی۔ آج تک اِن کا نام ’حووت یائیر‘ یعنی یائیر کی بستیاں ہے۔
او دارای سی پسر بود که بر سی الاغ سوار می‌شدند و سی شهر در سرزمین جلعاد داشتند که تا به امروز به نام شهرهای یائیر یاد می‌شوند.
جب یائیر انتقال کر گیا تو اُسے قامون میں دفنایا گیا۔
وقتی‌که فوت کرد، او را در قامون دفن کردند.
یائیر کی موت کے بعد اسرائیلی دوبارہ ایسی حرکتیں کرنے لگے جو رب کو بُری لگیں۔ وہ کئی دیوتاؤں کے پیچھے لگ گئے جن میں بعل دیوتا، عستارات دیوی اور شام، صیدا، موآب، عمونیوں اور فلستیوں کے دیوتا شامل تھے۔ یوں وہ رب کی پرستش اور خدمت کرنے سے باز آئے۔
بار دیگر مردم اسرائیل با پرستش خدایان در پیشگاه خداوند شرارت ورزیده، خدایان بعل و عشتاروت، یعنی خدایان سوریه، صیدون، موآب، عمون و فلسطین به خداوند گناه ورزیدند. آنها او را ترک کرده، از عبادت او دست کشیدند.
تب اُس کا غضب اُن پر نازل ہوا، اور اُس نے اُنہیں فلستیوں اور عمونیوں کے حوالے کر دیا۔
پس آتش خشم خداوند شعله‌ور شد و آنها را زیر سلطهٔ فلسطینیان و عمونیان برد.
اُسی سال کے دوران اِن قوموں نے جِلعاد میں اسرائیلیوں کے اُس علاقے پر قبضہ کیا جس میں پرانے زمانے میں اموری آباد تھے اور جو دریائے یردن کے مشرق میں تھا۔ فلستی اور عمونی 18 سال تک اسرائیلیوں کو کچلتے اور دباتے رہے۔
برای مدّت هجده سال آنها بر اسرائیلیانی که در سرزمین اموریان در شرق رود اردن در جلعاد زندگی می‌کردند، ظلم و ستم روا داشتند.
نہ صرف یہ بلکہ عمونیوں نے دریائے یردن کو پار کر کے یہوداہ، بن یمین اور افرائیم کے قبیلوں پر بھی حملہ کیا۔ جب اسرائیلی بڑی مصیبت میں تھے
عمونیان از رود اردن عبور کرده، برای جنگ با طایفه‌‌های یهودا، بنیامین و افرایم رفتند و زندگی را بر مردم اسرائیل تلخ ساختند.
تو آخرکار اُنہوں نے مدد کے لئے رب کو پکارا اور اقرار کیا، ”ہم نے تیرا گناہ کیا ہے۔ اپنے خدا کو ترک کر کے ہم نے بعل کے بُتوں کی پوجا کی ہے۔“
آنگاه قوم اسرائیل به حضور خداوند گریه و زاری کردند و گفتند: «ما در برابر تو گناه کرده‌ایم، زیرا ما خدای خود را ترک نموده، خدایان بعل را پرستش کرده‌ایم.»
رب نے جواب میں کہا، ”جب مصری، اموری، عمونی، فلستی،
خداوند به آنها فرمود: «آیا من شما را از دست مردمان مصر، اموری، عمونی و فلسطینی نجات ندادم؟
صیدانی، عمالیقی اور ماعونی تم پر ظلم کرتے تھے اور تم مدد کے لئے مجھے پکارنے لگے تو کیا مَیں نے تمہیں نہ بچایا؟
آیا وقتی شما از دست ظلم مردم صیدون، عمالق و معونی نزد من فریاد کردید، شما را نجات ندادم؟
اِس کے باوجود تم بار بار مجھے ترک کر کے دیگر معبودوں کی پوجا کرتے رہے ہو۔ اِس لئے اب سے مَیں تمہاری مدد نہیں کروں گا۔
امّا شما مرا ترک کردید و خدایان بیگانه را پرستیدید، پس من دیگر شما را نجات نخواهم داد.
جاؤ، اُن دیوتاؤں کے سامنے چیختے چلّاتے رہو جنہیں تم نے چن لیا ہے! وہی تمہیں مصیبت سے نکالیں۔“
بروید پیش همان خدایانی که برای خود انتخاب کردید تا شما را از ظلم و ستمی که می‌کشید، خلاص کنند.»
لیکن اسرائیلیوں نے رب سے فریاد کی، ”ہم سے غلطی ہوئی ہے۔ جو کچھ بھی تُو مناسب سمجھتا ہے وہ ہمارے ساتھ کر۔ لیکن تُو ہی ہمیں آج بچا۔“
مردم اسرائیل به خداوند گفتند: «ما گناهکاریم. هرچه که می‌خواهی در حق ما بکن. امّا اکنون یک‌بار دیگر ما را نجات بده.»
وہ اجنبی معبودوں کو اپنے بیچ میں سے نکال کر رب کی دوبارہ خدمت کرنے لگے۔ تب وہ اسرائیل کا دُکھ برداشت نہ کر سکا۔
پس آنها خدایان بیگانه را از بین بردند و دوباره خداوند را پرستش کردند. پس خداوند بر رنجهای آنان شفقت نمود.
اُن دنوں میں عمونی اپنے فوجیوں کو جمع کر کے جِلعاد میں خیمہ زن ہوئے۔ جواب میں اسرائیلی بھی جمع ہوئے اور مِصفاہ میں اپنے خیمے لگائے۔
در این وقت عمونیان، سپاه خود را در جلعاد آماده و مجهّز کردند. مردم اسرائیل هم همه یک‌‌جا جمع شده، در مصفه اردو زدند.
جِلعاد کے راہنماؤں نے اعلان کیا، ”ہمیں ایسے آدمی کی ضرورت ہے جو ہمارے آگے چل کر عمونیوں پر حملہ کرے۔ جو کوئی ایسا کرے وہ جِلعاد کے تمام باشندوں کا سردار بنے گا۔“
رهبران سپاه جلعاد از یکدیگر پرسیدند: «چه کسی می‌خواهد فرمانده ما در جنگ با عمونیان باشد؟ هرکسی که داوطلب شود، آن شخص حاکم ما در جلعاد خواهد بود.»