Job 17

میری روح شکستہ ہو گئی، میرے دن بجھ گئے ہیں۔ قبرستان ہی میرے انتظار میں ہے۔
روح من شکسته و عمر من به پایان رسیده و پایم به لب گور رسیده است.
میرے چاروں طرف مذاق ہی مذاق سنائی دیتا، میری آنکھیں لوگوں کا ہٹ دھرم رویہ دیکھتے دیکھتے تھک گئی ہیں۔
در همه‌جا می‌بینم که چگونه مردم مرا مسخره می‌کنند.
اے اللہ، میری ضمانت میرے اپنے ہاتھوں سے قبول فرما، کیونکہ اَور کوئی نہیں جو اُسے دے۔
خدایا، تو خودت شاهد من باش، زیرا هیچ‌کس از من حمایت نمی‌کند، همه مرا گناهکار می‌دانند، تو هم آنها را کور کرده‌ای و نمی‌توانند حقیقت را درک کنند. نگذار که آنها بر من پیروز شوند.
اُن کے ذہنوں کو تُو نے بند کر دیا، اِس لئے تُو اُن سے عزت نہیں پائے گا۔
خدایا، تو خودت شاهد من باش، زیرا هیچ‌کس از من حمایت نمی‌کند، همه مرا گناهکار می‌دانند، تو هم آنها را کور کرده‌ای و نمی‌توانند حقیقت را درک کنند. نگذار که آنها بر من پیروز شوند.
وہ اُس آدمی کی مانند ہیں جو اپنے دوستوں کو ضیافت کی دعوت دے، حالانکہ اُس کے اپنے بچے بھوکوں مر رہے ہوں۔
کسی‌که برای کسب منفعت از دوستان خود بدگویی کند، فرزندانش کور می‌شوند.
اللہ نے مجھے مذاق کا یوں نشانہ بنایا ہے کہ مَیں قوموں میں عبرت انگیز مثال بن گیا ہوں۔ مجھے دیکھتے ہی لوگ میرے منہ پر تھوکتے ہیں۔
خدا مرا مایهٔ تمسخر مردم ساخته و آنها به رویم تف می‌کنند.
میری آنکھیں غم کھا کھا کر دُھندلا گئی ہیں، میرے اعضا یہاں تک سوکھ گئے کہ سایہ ہی رہ گیا ہے۔
چشمانم از غم تار گشته‌اند و از من سایه‌ای بیش باقی نمانده است.
یہ دیکھ کر سیدھی راہ پر چلنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے اور بےگناہ بےدینوں کے خلاف مشتعل ہو جاتے ہیں۔
آنانی که خود را درستکار می‌دانند، تعجّب می‌کنند؛ و آنها همگی مرا به بی‌خدایی متّهم کرده‌اند.
راست باز اپنی راہ پر قائم رہتے، اور جن کے ہاتھ پاک ہیں وہ تقویت پاتے ہیں۔
اشخاص نیک در کارهای خوب پیشرفت می‌نمایند و روز‌به‌روز قویتر می‌گردند.
لیکن جہاں تک تم سب کا تعلق ہے، آؤ دوبارہ مجھ پر حملہ کرو! مجھے تم میں ایک بھی دانا آدمی نہیں ملے گا۔
اگر همه بیایید و در برابر من بایستید، گمان نمی‌کنم که بتوانم شخص فهمیده‌ای در بین شما پیدا کنم.
میرے دن گزر گئے ہیں۔ میرے وہ منصوبے اور دل کی آرزوئیں خاک میں مل گئی ہیں
عمر من به پایان رسیده است و آرزوهایم همه نقش بر آب شده‌اند.
جن سے رات دن میں بدل گئی اور روشنی اندھیرے کو دُور کر کے قریب آئی تھی۔
دوستانم می‌گویند: «از پی شامِ تاریک، روز روشن می‌آید.» امّا خودم می‌دانم که من همیشه در تاریکی باقی خواهم ماند.
اگر مَیں صرف اِتنی ہی اُمید رکھوں کہ پاتال میرا گھر ہو گا تو یہ کیسی اُمید ہو گی؟ اگر مَیں اپنا بستر تاریکی میں بچھا کر
یگانه آرزوی من این است که به دنیای مردگان بروم و آنجا خانهٔ ابدی من باشد.
قبر سے کہوں، ’تُو میرا باپ ہے‘ اور کیڑے سے، ’اے میری امی، اے میری بہن‘
گور را پدر و کِرمی را که مرا می‌خورد، مادر و خواهر خود خواهم خواند.
تو پھر یہ کیسی اُمید ہو گی؟ کون کہے گا، ’مجھے تیرے لئے اُمید نظر آتی ہے‘؟
امید من کجاست؟ چه کسی آن را برایم پیدا می‌کند؟
تب میری اُمید میرے ساتھ پاتال میں اُترے گی، اور ہم مل کر خاک میں دھنس جائیں گے۔“
امید من با من به گور نمی‌رود و با هم یک‌‌جا خاک نمی‌شویم.