Jeremiah 52

صِدقیاہ 21 سال کی عمر میں بادشاہ بنا، اور یروشلم میں اُس کی حکومت کا دورانیہ 11 سال تھا۔ اُس کی ماں حموطل بنت یرمیاہ لِبناہ شہر کی رہنے والی تھی۔
وقتی صدقیا بیست و یک ساله بود پادشاه یهودا شد و مدّت یازده سال در اورشلیم حکومت کرد. نام مادرش حمیطل دختر ارمیا از اهالی شهر لبنه بود.
یہویقیم کی طرح صِدقیاہ ایسا کام کرتا رہا جو رب کو ناپسند تھا۔
صدقیای پادشاه مانند یهویاقیم پادشاه، علیه خداوند مرتکب گناه شده بود.
رب یروشلم اور یہوداہ کے باشندوں سے اِتنا ناراض ہوا کہ آخر میں اُس نے اُنہیں اپنے حضور سے خارج کر دیا۔ ایک دن صِدقیاہ بابل کے بادشاہ سے سرکش ہوا،
خداوند چنان نسبت به مردم اورشلیم و یهودا خشمگین شد که آنها را از نظر خود دور کرد. صدقیا علیه نبوکدنصر پادشاه بابل شورید،
اِس لئے شاہِ بابل نبوکدنضر تمام فوج اپنے ساتھ لے کر دوبارہ یروشلم پہنچا تاکہ اُس پر حملہ کرے۔ صِدقیاہ کی حکومت کے نویں سال میں بابل کی فوج یروشلم کا محاصرہ کرنے لگی۔ یہ کام دسویں مہینے کے دسویں دن شروع ہوا۔ پورے شہر کے ارد گرد بادشاہ نے پُشتے بنوائے۔
پس نبوکدنصر هم با تمام سپاه خود آمد و در روز دهم از ماه دهم در نهمین سال سلطنت صدقیا به اورشلیم حمله کرد. آنها اطراف شهر اردو زدند و شهر را محاصره کردند
صِدقیاہ کی حکومت کے 11ویں سال تک یروشلم قائم رہا۔
و آن را تا یازدهمین سال سلطنت صدقیا در محاصره نگاه داشتند.
لیکن پھر کال نے شہر میں زور پکڑا، اور عوام کے لئے کھانے کی چیزیں نہ رہیں۔ چوتھے مہینے کے نویں دن
در نهمین روز ماه چهارم همان سال، زمانی که به‌خاطر قحطی دیگر چیزی باقی نمانده بود که مردم بخورند،
بابل کے فوجیوں نے فصیل میں رخنہ ڈال دیا۔ اُسی رات صِدقیاہ اپنے تمام فوجیوں سمیت فرار ہونے میں کامیاب ہوا، اگرچہ شہر دشمن سے گھرا ہوا تھا۔ وہ فصیل کے اُس دروازے سے نکلے جو شاہی باغ کے ساتھ ملحق دو دیواروں کے بیچ میں تھا۔ وہ وادیِ یردن کی طرف بھاگنے لگے،
دیوارهای شهر درهم شکسته شد. گرچه بابلی‌ها شهر را در محاصره داشتند، تمام سربازان موفّق شدند شبانه فرار کنند. آنها شهر را از راه باغهای سلطنتی ترک کردند و از دروازهٔ آب که دو دیوار را به هم مربوط می‌کرد، گذشتند و به سوی دشت اردن فرار کردند
لیکن بابل کی فوج نے بادشاہ کا تعاقب کر کے اُسے یریحو کے میدان میں پکڑ لیا۔ اُس کے فوجی اُس سے الگ ہو کر چاروں طرف منتشر ہو گئے،
امّا ارتش بابل، به دنبال آنها به تعقیب صدقیای پادشاه رفت. و او را در دشتهای نزدیک اریحا دستگیر کرد و تمام سربازانش او را ترک کردند.
اور وہ خود گرفتار ہو گیا۔ پھر اُسے ملکِ حمات کے شہر رِبلہ میں شاہِ بابل کے پاس لایا گیا، اور وہیں اُس نے صِدقیاہ پر فیصلہ صادر کیا۔
صدقیا را به حضور نبوکدنصر که در آن زمان در شهر ربله، در سرزمین حمات بود، بردند و در آنجا نبوکدنصر حکم مجازات او را صادر کرد.
صِدقیاہ کے دیکھتے دیکھتے شاہِ بابل نے رِبلہ میں اُس کے بیٹوں کو قتل کیا۔ ساتھ ساتھ اُس نے یہوداہ کے تمام بزرگوں کو بھی موت کے گھاٹ اُتار دیا۔
در ربله جلوی چشمان صدقیا، پسران او را کشتند و تمام بزرگان یهودا را اعدام کردند.
پھر اُس نے صِدقیاہ کی آنکھیں نکلوا کر اُسے پیتل کی زنجیروں میں جکڑ لیا اور بابل لے گیا جہاں وہ جیتے جی رہا۔
بعد از اینکه صدقیا را کور کرد او را به زنجیر بست و به بابل برد. صدقیا تا روز مرگش در بابل زندانی بود.
شاہِ بابل نبوکدنضر کی حکومت کے 19ویں سال میں بادشاہ کا خاص افسر نبوزرادان یروشلم پہنچا۔ وہ شاہی محافظوں پر مقرر تھا۔ پانچویں مہینے کے ساتویں دن اُس نے آ کر
در روز دهم از ماه پنجم در نوزدهمین سال سلطنت نبوکدنصر پادشاه، نبوزرادان مشاور و فرماندهٔ ارتش او وارد اورشلیم شد.
رب کے گھر، شاہی محل اور یروشلم کے تمام مکانوں کو جلا دیا۔ ہر بڑی عمارت بھسم ہو گئی۔
او معبد بزرگ، کاخ سلطنتی، و خانه‌های بزرگان اورشلیم را آتش زد
اُس نے اپنے تمام فوجیوں سے شہر کی پوری فصیل کو بھی گرا دیا۔
و سربازانش دیوارهای شهر را خراب کردند.
پھر نبوزرادان نے سب کو جلاوطن کر دیا جو یروشلم میں پیچھے رہ گئے تھے۔ وہ بھی اُن میں شامل تھے جو جنگ کے دوران غداری کر کے شاہِ بابل کے پیچھے لگ گئے تھے۔ نبوزرادان باقی ماندہ کاری گر اور غریبوں میں سے بھی کچھ بابل لے گیا۔
بعد از آن، نبوزرادان همهٔ مردانی را که در شهر مانده بودند، به همراه بقیّهٔ صنعتگران و همچنین کسانی‌که خودشان را به بابلی‌ها تسلیم کرده بودند، همه را به اسارت به بابل برد.
لیکن اُس نے سب سے نچلے طبقے کے بعض لوگوں کو ملکِ یہوداہ میں چھوڑ دیا تاکہ وہ انگور کے باغوں اور کھیتوں کو سنبھالیں۔
امّا در یهودا، او بعضی از فقیرترین مردمان را که مالک هیچ ملکی نبودند، نگاه داشت و به کار کردن در تاکستانها و مزارع مجبور کرد.
بابل کے فوجیوں نے رب کے گھر میں جا کر پیتل کے دونوں ستونوں، پانی کے باسنوں کو اُٹھانے والی ہتھ گاڑیوں اور سمندر نامی پیتل کے حوض کو توڑ دیا اور سارا پیتل اُٹھا کر بابل لے گئے۔
بابلی‌ها، ستونهای برنزی و پایه‌های آن را که در معبد بزرگ بود قطعه‌قطعه کردند و به همراه حوضچهٔ بزرگ و تمام برنزهایی که در معبد بزرگ بود، همه را به بابل بردند.
وہ رب کے گھر کی خدمت سرانجام دینے کے لئے درکار سامان بھی لے گئے یعنی بالٹیاں، بیلچے، بتی کترنے کے اوزار، چھڑکاؤ کے کٹورے، پیالے اور پیتل کا باقی سارا سامان۔
آنها همچنین بیلها و خاک‌اندازهایی که برای تمیز کردن قربانگاه استفاده می‌شد، چراغها، کاسه‌هایی که برای نگاه داشتن خون قربانی‌ها به کار می‌رفت، و کاسه‌های مخصوص سوزاندن بُخور و تمام وسایل برنزی دیگری که در معبد بزرگ از آنها استفاده می‌شد، همه را به بابل بردند.
خالص سونے اور چاندی کے برتن بھی اِس میں شامل تھے یعنی باسن، جلتے ہوئے کوئلے کے برتن، چھڑکاؤ کے کٹورے، بالٹیاں، شمع دان، پیالے اور مَے کی نذریں پیش کرنے کے برتن۔ شاہی محافظوں کا یہ افسر سارا سامان اُٹھا کر بابل لے گیا۔
آنها همچنین هر چیزی را که از طلا و نقره درست شده بود، مانند: منقلها، کاسه‌ها برای نگاهداری خون قربانی‌ها، ظروف مخصوص برای جمع کردن خاکستر، مشعلدانها، کاسه‌هایی که برای سوزاندن بُخور به کار می‌رفت، جامهایی که برای ریختن شرابهای تقدیم شده استفاده می‌شد، همه را با خود بردند.
جب دونوں ستونوں، سمندر نامی حوض، حوض کو اُٹھانے والے پیتل کے بَیلوں اور باسنوں کو اُٹھانے والی ہتھ گاڑیوں کا پیتل تڑوایا گیا تو وہ اِتنا وزنی تھا کہ اُسے تولا نہ جا سکا۔ سلیمان بادشاہ نے یہ چیزیں رب کے گھر کے لئے بنوائی تھیں۔
تمام اشیای برنزی که سلیمان پادشاه برای معبد بزرگ ساخته بود مانند: دو ستون و حوضچهٔ برنزی و مجسمهٔ‌های دوازده گاوی که حوضچه بر روی آنها قرار داشت را نیز با خود بردند. آنها آن‌قدر سنگین بودند که نمی‌توانستند آنها را وزن کنند.
ہر ستون کی اونچائی 27 فٹ اور گھیرا 18 فٹ تھا۔ دونوں کھوکھلے تھے، اور اُن کی دیواروں کی موٹائی 3 انچ تھی۔
دو ستون کاملاً مثل هم بودند، ارتفاع آنها در حدود هشت متر و محیط آنها در حدود پنج و نیم متر بود. داخلشان خالی و ضخامت فلز جدار خارجی آن هفت سانتیمتر بود. در بالای هریک از ستونها تاجی قرار داشت، به ارتفاع دو متر و نیم. تمام اطراف ستونها کنده‌کاری و با شاخه‌های انارهای برنزی مزّین شده بود.
اُن کے بالائی حصوں کی اونچائی ساڑھے سات فٹ تھی، اور وہ پیتل کی جالی اور اناروں سے سجے ہوئے تھے۔
دو ستون کاملاً مثل هم بودند، ارتفاع آنها در حدود هشت متر و محیط آنها در حدود پنج و نیم متر بود. داخلشان خالی و ضخامت فلز جدار خارجی آن هفت سانتیمتر بود. در بالای هریک از ستونها تاجی قرار داشت، به ارتفاع دو متر و نیم. تمام اطراف ستونها کنده‌کاری و با شاخه‌های انارهای برنزی مزّین شده بود.
96 انار لگے ہوئے تھے۔ جالی کے ارد گرد کُل 100 انار لگے تھے۔
بر روی هر ستون صد انار کنده‌کاری شده بود و نود و شش عدد از آنها از پایین قابل رؤیت بود.
شاہی محافظوں کے افسر نبوزرادان نے ذیل کے قیدیوں کو الگ کر دیا: امامِ اعظم سرایاہ، اُس کے بعد آنے والے امام صفنیاہ، رب کے گھر کے تین دربانوں،
علاوه بر آن، نبوزرادان فرمانده سپاه، سریا کاهن اعظم، صَفَنیا معاون او و سه نفر دیگر از بزرگان معبد بزرگ را به اسارت گرفت.
شہر کے بچے ہوؤں میں سے اُس افسر کو جو شہر کے فوجیوں پر مقرر تھا، صِدقیاہ بادشاہ کے سات مشیروں، اُمّت کی بھرتی کرنے والے افسر اور شہر میں موجود اُس کے 60 مردوں کو۔
در داخل شهر او افسری که فرماندهی سربازان را به عهده داشت به همراه هفت نفر دیگر از مشاوران شخصی پادشاه، معاون فرمانده -‌که مسئول بایگانی ارتش بود- و شصت نفر از بزرگان یهودا، همه را به اسارت برد.
نبوزرادان اِن سب کو الگ کر کے صوبہ حمات کے شہر رِبلہ لے گیا جہاں شاہِ بابل تھا۔
نبوزرادان همهٔ آنها را به حضور نبوکدنصر پادشاه برد که در آن زمان در ربله،
وہاں نبوکدنضر نے اُنہیں سزائے موت دی۔ یوں یہوداہ کے باشندوں کو جلاوطن کر دیا گیا۔
واقع در محلهٔ حمات بود. پادشاه دستور داد همهٔ آنها کشته شوند. به این ترتیب، مردم یهودا از سرزمین خودشان تبعید شدند.
نبوکدنضر نے اپنی حکومت کے 7ویں سال میں یہوداہ کے 3,023 افراد،
این است تعداد مردمی که نبوکدنصر به اسارت برد: در سال هفتم سلطنت خود سه هزار و بیست و سه نفر از یهودا؛
18ویں سال میں یروشلم کے 832 افراد،
در سال هجدهم پادشاهی نبوکدنصر، هشتصد و سی و دو نفر از اورشلیم به اسیری برد؛
اور 23ویں سال میں 745 افراد کو جلاوطن کر دیا۔ یہ آخری لوگ شاہی محافظوں کے افسر نبوزرادان کے ذریعے بابل لائے گئے۔ کُل 4,600 افراد جلاوطن ہوئے۔
در سال بیست و سوم سلطنت نبوکدنصر، نبوزرادان، فرماندهٔ نگهبانان هفتصد و چهل و پنج نفر از یهودا را به اسیری برد. بنابراین در مجموع چهار هزار و ششصد نفر تبعید شدند.
یہوداہ کے بادشاہ یہویاکین کی جلاوطنی کے 37ویں سال میں اَویل مرودک بابل کا بادشاہ بنا۔ اُسی سال کے 12ویں مہینے کے 25ویں دن اُس نے یہویاکین کو قیدخانے سے آزاد کر دیا۔
در روز بیست و پنجم ماه دوازدهم سی و هفتمین سال اسارت یهویاکین، پادشاه یهودا، یعنی در نخستین سال سلطنت اویل مردوک در بابل، یهویاکین مورد لطف او قرار گرفت و او را از زندان آزاد کرد.
اُس نے اُس کے ساتھ نرم باتیں کر کے اُسے عزت کی ایسی کرسی پر بٹھایا جو بابل میں جلاوطن کئے گئے باقی بادشاہوں کی نسبت زیادہ اہم تھی۔
اویل مردوک با او دوستانه رفتار نمود و از تمام پادشاهانی که در بابل در تبعید به سر می‌بردند، به یهویاکین افتخار بیشتر بخشید.
یہویاکین کو قیدی کے کپڑے اُتارنے کی اجازت ملی، اور اُسے زندگی بھر بادشاہ کی میز پر باقاعدگی سے کھانا کھانے کا شرف حاصل رہا۔
پس یهویاکین لباس زندانی خود را کنار گذاشت و او در تمامی عمرش همواره با پادشاه بر سر یک سفره غذا می‌خورد.
بادشاہ نے مقرر کیا کہ یہویاکین کو عمر بھر اِتنا وظیفہ ملتا رہے کہ اُس کی روزمرہ ضروریات پوری ہوتی رہیں۔
یهویاکین تا هنگامی‌که زنده بود، هر روز از پادشاه بابل مقرّری دریافت می‌کرد.