Ezekiel 3

اُس نے فرمایا، ”اے آدم زاد، جو کچھ تجھے دیا جا رہا ہے اُسے کھا لے! طومار کو کھا، پھر جا کر اسرائیلی قوم سے مخاطب ہو جا۔“
خدا فرمود: «ای انسان فانی، این طومار را بخور و سپس نزد قوم اسرائیل برو و سخن بگو.»
مَیں نے اپنا منہ کھولا تو اُس نے مجھے طومار کھلایا۔
پس دهانم را باز کردم و او طومار را داد که بخورم.
ساتھ ساتھ اُس نے فرمایا، ”آدم زاد، جو طومار مَیں تجھے کھلاتا ہوں اُسے کھا، پیٹ بھر کر کھا!“ جب مَیں نے اُسے کھایا تو شہد کی طرح میٹھا لگا۔
او گفت: «ای انسان فانی، طوماری را که به تو دادم بخور و شکم خود را از آن پُر کن.» آنگاه آن را خوردم و در دهانم مانند عسل شیرین بود.
تب اللہ مجھ سے ہم کلام ہوا، ”اے آدم زاد، اب جا کر اسرائیلی گھرانے کو میرے پیغامات سنا دے۔
سپس خدا به من فرمود: «ای انسان فانی، نزد قوم اسرائیل برو و سخنان مرا دقیقاً به ایشان بگو.
مَیں تجھے ایسی قوم کے پاس نہیں بھیج رہا جس کی اجنبی زبان تجھے سمجھ نہ آئے بلکہ تجھے اسرائیلی قوم کے پاس بھیج رہا ہوں۔
زیرا که نزد مردمی ‌با زبان ناشناخته و زبانی دشوار فرستاده نشده‌ای، بلکه نزد قوم اسرائیل.
بےشک ایسی بہت سی قومیں ہیں جن کی اجنبی زبانیں تجھے نہیں آتیں، لیکن اُن کے پاس مَیں تجھے نہیں بھیج رہا۔ اگر مَیں تجھے اُن ہی کے پاس بھیجتا تو وہ ضرور تیری سنتیں۔
اگر تو را نزد مردمی ‌فرستاده بودم که فهمیدن زبان ایشان برای تو مشکل بود، آنها به تو گوش می‌دادند؛
لیکن اسرائیلی گھرانا تیری سننے کے لئے تیار نہیں ہو گا، کیونکہ وہ میری سننے کے لئے تیار ہی نہیں۔ کیونکہ پوری قوم کا ماتھا سخت اور دل اَڑا ہوا ہے۔
امّا قوم اسرائیل به تو گوش نخواهند داد، زیرا ایشان نمی‌خواهند به من گوش کنند، چون همهٔ قوم اسرائیل سرسخت و سنگدل هستند.
لیکن مَیں نے تیرا چہرہ بھی اُن کے چہرے جیسا سخت کر دیا، تیرا ماتھا بھی اُن کے ماتھے جیسا مضبوط کر دیا ہے۔
اکنون من تو را همچون ایشان سرسخت و خشن خواهم ساخت
تُو اُن کا مقابلہ کر سکے گا، کیونکہ مَیں نے تیرے ماتھے کو ہیرے جیسا مضبوط، چقماق جیسا پائے دار کر دیا ہے۔ گو یہ قوم باغی ہے توبھی اُن سے خوف نہ کھا، نہ اُن کے سلوک سے دہشت زدہ ہو۔“
و مانند سنگ، محکم و همچون الماس، سخت می‌گردانم تا از این مردم سرکش نترسی.»
اللہ نے مزید فرمایا، ”اے آدم زاد، میری ہر بات پر دھیان دے کر اُسے ذہن میں بٹھا۔
خدا ادامه داده، گفت: «ای انسان فانی، با دقّت توجّه کن و آنچه را که به تو می‌گویم به‌خاطر بسپار.
اب روانہ ہو کر اپنی قوم کے اُن افراد کے پاس جا جو بابل میں جلاوطن ہوئے ہیں۔ اُنہیں وہ کچھ سنا دے جو رب قادرِ مطلق اُنہیں بتانا چاہتا ہے، خواہ وہ سنیں یا نہ سنیں۔“
آنگاه به نزد مردم قوم خودت که در تبعید می‌باشند برو و آنچه را که من، خداوند متعال می‌گویم بگو؛ خواه بشنوند و خواه نشنوند.»
پھر اللہ کے روح نے مجھے وہاں سے اُٹھایا۔ جب رب کا جلال اپنی جگہ سے اُٹھا تو مَیں نے اپنے پیچھے ایک گڑگڑاتی آواز سنی۔
آنگاه روح خدا مرا برداشت و از پشت سر من غرّش عظیمی ‌برخاست که می‌گفت: «متبارک باد جلال خداوند در جایگاه ملکوتی او!»
فضا چاروں جانداروں کے شور سے گونج اُٹھی جب اُن کے پَر ایک دوسرے سے لگنے اور اُن کے پہئے گھومنے لگے۔
از به هم خوردن بالهای آن موجودات و چرخهای کنار آنها صدای بلندی چون صدای زلزله برمی‌خاست.
اللہ کا روح مجھے اُٹھا کر وہاں سے لے گیا، اور مَیں تلخ مزاجی اور بڑی سرگرمی سے روانہ ہوا۔ کیونکہ رب کا ہاتھ زور سے مجھ پر ٹھہرا ہوا تھا۔
قدرت خداوند با نیروی عظیمی‌ بر من آمد و روح او مرا برد. من احساس تلخی و خشم کردم.
چلتے چلتے مَیں دریائے کبار کی آبادی تل ابیب میں رہنے والے جلاوطنوں کے پاس پہنچ گیا۔ مَیں اُن کے درمیان بیٹھ گیا۔ سات دن تک میری حالت گم صم رہی۔
پس به تل ابیب، نزد تبعیدیانی که در کنار رود خابور ساکن بودند، رسیدم و در آنجا مدّت هفت روز حیرت زده نشستم.
سات دن کے بعد رب مجھ سے ہم کلام ہوا،
در پایان روز هفتم خداوند به من فرمود:
”اے آدم زاد، مَیں نے تجھے اسرائیلی قوم پر پہرے دار بنایا، اِس لئے جب بھی تجھے مجھ سے کلام ملے تو اُنہیں میری طرف سے آگاہ کر!
«ای انسان فانی، من تو را به دیده‌بانی قوم اسرائیل گماشته‌ام، هرگاه کلمه‌ای از دهان من شنیدی باید از طرف من به ایشان هشدار دهی.
مَیں تیرے ذریعے بےدین کو اطلاع دوں گا کہ اُسے مرنا ہی ہے تاکہ وہ اپنی بُری راہ سے ہٹ کر بچ جائے۔ اگر تُو اُسے یہ پیغام نہ پہنچائے، نہ اُسے تنبیہ کرے اور وہ اپنے قصور کے باعث مر جائے تو مَیں تجھے ہی اُس کی موت کا ذمہ دار ٹھہراؤں گا۔
اگر اعلام کنم که شخص شریری خواهد مرد و تو هشدار مرا به او نرسانی و نگویی که از کارهای بد خود توبه کند، در آن صورت به‌خاطر گناه خود می‌میرد، ولی من تو را مسئول مرگ او خواهم دانست.
لیکن اگر وہ تیری تنبیہ پر اپنی بےدینی اور بُری راہ سے نہ ہٹے تو یہ الگ بات ہے۔ بےشک وہ مرے گا، لیکن تُو ذمہ دار نہیں ٹھہرے گا بلکہ اپنی جان کو چھڑائے گا۔
هرگاه به شخص بدکاری هشدار بدهی و او باز هم توبه نکند و از گناه کردن دست نکشد، آنگاه او غرق در گناه می‌میرد، ولی تو از مرگ نجات می‌یابی.
جب راست باز اپنی راست بازی کو چھوڑ کر بُری راہ پر آ جائے گا تو مَیں تجھے اُسے آگاہ کرنے کی ذمہ داری دوں گا۔ اگر تُو یہ کرنے سے باز رہا تو تُو ہی ذمہ دار ٹھہرے گا جب مَیں اُسے ٹھوکر کھلا کر مار ڈالوں گا۔ اُس وقت اُس کے راست کام یاد نہیں رہیں گے بلکہ وہ اپنے گناہ کے سبب سے مرے گا۔ لیکن تُو ہی اُس کی موت کا ذمہ دار ٹھہرے گا۔
«اگر مرد درستکاری شروع به شرارت ورزیدن نماید و من او را در موقعیّت خطرناکی قرار دهم، او خواهد مُرد، اگر تو به او هشدار ندهی. او به‌خاطر گناهان خودش خواهد مرد -‌من کارهای نیک او را به یاد نخواهم آورد- و من تو را مسئول مرگ او خواهم دانست.
لیکن اگر تُو اُسے تنبیہ کرے اور وہ اپنے گناہ سے باز آئے تو وہ میری تنبیہ کو قبول کرنے کے باعث بچے گا، اور تُو بھی اپنی جان کو چھڑائے گا۔“
امّا اگر مرد درستکاری را از گناه کردن هشدار دادی و از گناه کردن دست کشید، به راستی زنده خواهد ماند، زیرا هشدار را پذیرفت و تو جان خود را نجات داده‌ای.»
وہیں رب کا ہاتھ دوبارہ مجھ پر آ ٹھہرا۔ اُس نے فرمایا، ”اُٹھ، یہاں سے نکل کر وادی کے کھلے میدان میں چلا جا! وہاں مَیں تجھ سے ہم کلام ہوں گا۔“
در آنجا بار دیگر حضور پرتوان خداوند را احساس کردم و به من فرمود: «برخیز و به دشت برو و من در آنجا با تو سخن می‌گویم.»
مَیں اُٹھا اور نکل کر وادی کے کھلے میدان میں چلا گیا۔ جب پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ رب کا جلال وہاں یوں موجود ہے جس طرح پہلی رویا میں دریائے کبار کے کنارے پر تھا۔ مَیں منہ کے بل گر گیا۔
پس برخاستم و به دشت رفتم و آنجا جلال خداوند را همان‌گونه که در کنار رود خابور دیده بودم، مشاهده کردم و من به روی خود به خاک افتادم.
تب اللہ کے روح نے آ کر مجھے دوبارہ کھڑا کیا اور فرمایا، ”اپنے گھر میں جا کر اپنے پیچھے کنڈی لگا۔
امّا روح خدا بر من آمد و مرا بر پاهایم برپا داشت و با من سخن گفت و فرمود: «برو و خود را در خانه‌ات زندانی کن.
اے آدم زاد، لوگ تجھے رسّیوں میں جکڑ کر بند رکھیں گے تاکہ تُو نکل کر دوسروں میں نہ پھر سکے۔
ای انسان فانی، تو را به بند خواهند کشید تا نتوانی به میان مردم بیرون بروی.
مَیں ہونے دوں گا کہ تیری زبان تالو سے چپک جائے اور تُو خاموش رہ کر اُنہیں ڈانٹ نہ سکے۔ کیونکہ یہ قوم سرکش ہے۔
من زبانت را به کامت می‌چسبانم تا گنگ شوی و نتوانی این قوم سرکش را سرزنش کنی.
لیکن جب بھی مَیں تجھ سے ہم کلام ہوں گا تو تیرے منہ کو کھولوں گا۔ تب تُو میرا کلام سنا کر کہے گا، ’رب قادرِ مطلق فرماتا ہے!‘ تب جو سننے کے لئے تیار ہو وہ سنے، اور جو تیار نہ ہو وہ نہ سنے۔ کیونکہ یہ قوم سرکش ہے۔
سپس وقتی دوباره من با تو صحبت کنم و دوباره به تو قدرت سخن گفتن بدهم، تو به آنها خواهی گفت که من خداوند متعال، چه می‌گویم. برخی از آنها گوش خواهند داد و امّا برخی به تو بی‌اعتنایی می‌کنند، زیرا آنها قومی سرکش می‌باشند.»