Acts 7

امامِ اعظم نے پوچھا، ”کیا یہ سچ ہے؟“
آنگاه كاهن اعظم پرسید: «آیا اینها راست می‌گویند؟»
ستفنس نے جواب دیا، ”بھائیو اور بزرگو، میری بات سنیں۔ جلال کا خدا ہمارے باپ ابراہیم پر ظاہر ہوا جب وہ ابھی مسوپتامیہ میں آباد تھا۔ اُس وقت وہ حاران میں منتقل نہیں ہوا تھا۔
استیفان جواب داد: «ای برادران و ای پدران، توجّه بفرمایید، خدای پرجلال به پدر ما ابراهیم در وقتی‌که در بین‌النهرین سكونت داشت، یعنی قبل از مهاجرت به حرّان ظاهر شد
اللہ نے اُس سے کہا، ’اپنے وطن اور اپنی قوم کو چھوڑ کر اُس ملک میں چلا جا جو مَیں تجھے دکھاؤں گا۔‘
و به او فرمود: 'وطن خود و بستگانت را ترک كن و به سرزمینی كه به تو نشان می‌دهم برو.'
چنانچہ وہ کسدیوں کے ملک کو چھوڑ کر حاران میں رہنے لگا۔ وہاں اُس کا باپ فوت ہوا تو اللہ نے اُسے اِس ملک میں منتقل کیا جس میں آپ آج تک آباد ہیں۔
پس به این ترتیب از زمین كلدانیان عزیمت كرد و مدّتی در حرّان ماند و پس از مرگ پدرش، خدا او را از آنجا به سرزمینی كه امروز شما در آن سكونت دارید منتقل ساخت.
اُس وقت اللہ نے اُسے اِس ملک میں کوئی بھی موروثی زمین نہ دی تھی، ایک مربع فٹ تک بھی نہیں۔ لیکن اُس نے اُس سے وعدہ کیا، ’مَیں اِس ملک کو تیرے اور تیری اولاد کے قبضے میں کر دوں گا،‘ اگرچہ اُس وقت ابراہیم کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا تھا۔
خدا حتّی یک وجب از آن سرزمین را به ابراهیم نداد. امّا در همان وقت كه او هنوز فرزندی نداشت به او قول داد، كه او و بعد از او فرزندانش را مالک آن زمین بگرداند.
اللہ نے اُسے یہ بھی بتایا، ’تیری اولاد ایسے ملک میں رہے گی جو اُس کا نہیں ہو گا۔ وہاں وہ اجنبی اور غلام ہو گی، اور اُس پر 400 سال تک بہت ظلم کیا جائے گا۔
پس خدا به این طریق به ابراهیم فرمود كه فرزندان او مانند غریبه‌ها در یک سرزمین بیگانه زندگی خواهند كرد و مدّت چهارصد سال در بندگی و ظلم به سر خواهند برد.
لیکن مَیں اُس قوم کی عدالت کروں گا جس نے اُسے غلام بنایا ہو گا۔ اِس کے بعد وہ اُس ملک میں سے نکل کر اِس مقام پر میری عبادت کریں گے۔‘
و خدا فرمود: 'امّا من آن ملّتی را كه قوم من بردگان آنها خواهند شد محکوم خواهم ساخت و بعد از آن آنان آزاد خواهند شد و مرا در همین مكان عبادت خواهند كرد.'
پھر اللہ نے ابراہیم کو ختنہ کا عہد دیا۔ چنانچہ جب ابراہیم کا بیٹا اسحاق پیدا ہوا تو باپ نے آٹھویں دن اُس کا ختنہ کیا۔ یہ سلسلہ جاری رہا جب اسحاق کا بیٹا یعقوب پیدا ہوا اور یعقوب کے بارہ بیٹے، ہمارے بارہ قبیلوں کے سردار۔
در همین زمان خدا ختنه را به عنوان نشانهٔ پیمان خود به ابراهیم عطا كرد و به این ترتیب پس از تولّد اسحاق او را در روز هشتم ختنه كرد و اسحاق، یعقوب را، و یعقوب، دوازده فرزند خود را كه بعدها هر كدام پدر یک طایفهٔ اسرائیل شدند.
یہ سردار اپنے بھائی یوسف سے حسد کرنے لگے اور اِس لئے اُسے بیچ دیا۔ یوں وہ غلام بن کر مصر پہنچا۔ لیکن اللہ اُس کے ساتھ رہا
«فرزندان یعقوب از روی حسد یوسف را به بردگی در مصر فروختند، امّا خدا با او بود
اور اُسے اُس کی تمام مصیبتوں سے رِہائی دی۔ اُس نے اُسے دانائی عطا کر کے اِس قابل بنا دیا کہ وہ مصر کے بادشاہ فرعون کا منظورِ نظر ہو جائے۔ یوں فرعون نے اُسے مصر اور اپنے پورے گھرانے پر حکمران مقرر کیا۔
و او را از جمیع زحماتش رهانید و به او توفیق و حكمت عطا فرمود به طوری ‌كه مورد پسند فرعون، فرمانروای مصر واقع شد و یوسف فرمانروای سرزمین مصر و دربار سلطنتی گردید.
پھر تمام مصر اور کنعان میں کال پڑا۔ لوگ بڑی مصیبت میں پڑ گئے اور ہمارے باپ دادا کے پاس بھی خوراک ختم ہو گئی۔
در این هنگام در سرتاسر مصر و كنعان قحطی‌ای پدید آمد كه باعث مصیبت عظیمی شد به حدّی كه اجداد ما چیزی برای خوردن نیافتند.
یعقوب کو پتا چلا کہ مصر میں اب تک اناج ہے، اِس لئے اُس نے اپنے بیٹوں کو اناج خریدنے کو وہاں بھیج دیا۔
وقتی یعقوب باخبر شد كه در مصر غلّه پیدا می‌شود نیاکان ما را برای اولین بار به آنجا فرستاد.
جب اُنہیں دوسری بار وہاں جانا پڑا تو یوسف نے اپنے آپ کو اپنے بھائیوں پر ظاہر کیا، اور فرعون کو یوسف کے خاندان کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔
در سفر دوم یوسف خود را به برادرانش شناسانید و فرعون از اصل و نصب یوسف باخبر شد.
اِس کے بعد یوسف نے اپنے باپ یعقوب اور تمام رشتے داروں کو بُلا لیا۔ کُل 75 افراد آئے۔
یوسف پدر خود یعقوب و تمام بستگانش را كه جمعاً هفتاد و پنج نفر بودند به مصر دعوت كرد
یوں یعقوب مصر پہنچا۔ وہاں وہ اور ہمارے باپ دادا مر گئے۔
و به این ترتیب یعقوب به مصر قدم نهاد. عمر یعقوب و اجداد ما در آنجا به سر رسید
اُنہیں سِکم میں لا کر اُس قبر میں دفنایا گیا جو ابراہیم نے ہمور کی اولاد سے پیسے دے کر خریدی تھی۔
و اجساد آنان را به شكیم بردند و در آرامگاهی كه ابراهیم از فرزند حمور به مبلغی خریده بود به خاک سپردند.
پھر وہ وقت قریب آ گیا جس کا وعدہ اللہ نے ابراہیم سے کیا تھا۔ مصر میں ہماری قوم کی تعداد بہت بڑھ چکی تھی۔
«و چون وقت آن نزدیک می‌شد كه خدا به وعده‌ای كه به ابراهیم داده بود، عمل كند قوم ما در سرزمین مصر رشد كرد و تعداد آنان افزایش یافت.
لیکن ہوتے ہوتے ایک نیا بادشاہ تخت نشین ہوا جو یوسف سے ناواقف تھا۔
سرانجام پادشاه دیگری كه یوسف را نمی‌شناخت به پادشاهی مصر رسید
اُس نے ہماری قوم کا استحصال کر کے اُن سے بدسلوکی کی اور اُنہیں اپنے شیرخوار بچوں کو ضائع کرنے پر مجبور کیا۔
و با اجداد ما با نیرنگ رفتار كرد و بر آنان ظلم بسیار روا داشت به حدّی ‌كه ایشان را مجبور ساخت كه نوزادان خود را سر راه بگذارند تا بمیرند.
اُس وقت موسیٰ پیدا ہوا۔ وہ اللہ کے نزدیک خوب صورت بچہ تھا اور تین ماہ تک اپنے باپ کے گھر میں پالا گیا۔
در چنین روزگاری موسی كه كودكی بسیار زیبا بود، به دنیا آمد. او مدّت سه ماه در خانهٔ پدر پرورش یافت
اِس کے بعد والدین کو اُسے چھوڑنا پڑا، لیکن فرعون کی بیٹی نے اُسے لے پالک بنا کر اپنے بیٹے کے طور پر پالا۔
و وقتی او را سر راه گذاشتند، دختر فرعون او را برداشت و همچون فرزند خود تربیت نمود.
اور موسیٰ کو مصریوں کی حکمت کے ہر شعبے میں تربیت ملی۔ اُسے بولنے اور عمل کرنے کی زبردست قابلیت حاصل تھی۔
به این ترتیب موسی بر تمام فرهنگ و معارف مصر تسلّط یافت و در گفتار و كردار استعداد مخصوصی از خود نشان داد.
جب وہ چالیس سال کا تھا تو اُسے اپنی قوم اسرائیل کے لوگوں سے ملنے کا خیال آیا۔
«همین‌كه موسی چهل ساله شد به فكرش رسید كه به دیدن برادران اسرائیلی خود برود
جب اُس نے اُن کے پاس جا کر دیکھا کہ ایک مصری کسی اسرائیلی پر تشدد کر رہا ہے تو اُس نے اسرائیلی کی حمایت کر کے مظلوم کا بدلہ لیا اور مصری کو مار ڈالا۔
و چون دید كه مردی مصری با یكی از آنان بدرفتاری می‌کرد، به حمایت آن اسرائیلی برخاست و آن تجاوزكار مصری را به سزای عمل خود رسانید و او را كشت.
اُس کا خیال تو یہ تھا کہ میرے بھائیوں کو سمجھ آئے گی کہ اللہ میرے وسیلے سے اُنہیں رِہائی دے گا، لیکن ایسا نہیں تھا۔
موسی گمان می‌کرد كه هم نژادانش خواهند فهمید كه خدا او را وسیلهٔ نجات آنان قرار داده است، امّا آنان نفهمیدند.
اگلے دن وہ دو اسرائیلیوں کے پاس سے گزرا جو آپس میں لڑ رہے تھے۔ اُس نے صلح کرانے کی کوشش میں کہا، ’مردو، آپ تو بھائی ہیں۔ آپ کیوں ایک دوسرے سے غلط سلوک کر رہے ہیں؟‘
فردای آن روز به دو نفر اسرائیلی كه با هم نزاع می‌کردند رسید و برای رفع اختلافشان چنین گفت: 'ای دوستان، شما برادرید. چرا با هم بدرفتاری می‌کنید؟'
لیکن جو آدمی دوسرے سے بدسلوکی کر رہا تھا اُس نے موسیٰ کو ایک طرف دھکیل کر کہا، ’کس نے آپ کو ہم پر حکمران اور قاضی مقرر کیا ہے؟
مرد مقصّر او را عقب زد و گفت 'چه كسی تو را حاكم و قاضی ما كرده است؟
کیا آپ مجھے بھی قتل کرنا چاہتے ہیں جس طرح کل مصری کو مار ڈالا تھا؟‘
می‌خواهی مرا هم مثل آن مصری كه دیروز كشتی، بكشی؟'
یہ سن کر موسیٰ فرار ہو کر ملکِ مِدیان میں اجنبی کے طور پر رہنے لگا۔ وہاں اُس کے دو بیٹے پیدا ہوئے۔
موسی وقتی این جواب را شنید از آن سرزمین گریخت و در سرزمین مدیان آواره گشت و در آنجا صاحب دو پسر شد.
چالیس سال کے بعد ایک فرشتہ جلتی ہوئی کانٹےدار جھاڑی کے شعلے میں اُس پر ظاہر ہوا۔ اُس وقت موسیٰ سینا پہاڑ کے قریب ریگستان میں تھا۔
«پس از آنكه چهل سال سپری شد، فرشته‌ای در بیابانهای اطراف كوه سینا در بوته‌ای سوزان به موسی ظاهر شد.
یہ منظر دیکھ کر موسیٰ حیران ہوا۔ جب وہ اُس کا معائنہ کرنے کے لئے قریب پہنچا تو رب کی آواز سنائی دی،
موسی از دیدن آن رؤیا غرق حیرت گشت و هنگامی‌كه نزدیک آمد تا بهتر ببیند، صدای خداوند به گوشش رسید كه می‌گفت:
’مَیں تیرے باپ دادا کا خدا، ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کا خدا ہوں۔‘ موسیٰ تھرتھرانے لگا اور اُس طرف دیکھنے کی جرٲت نہ کی۔
'من خدای نیاکان تو، خدای ابراهیم و اسحاق و یعقوب هستم.' موسی ترسید و جرأت نگاه كردن نداشت.
پھر رب نے اُس سے کہا، ’اپنی جوتیاں اُتار، کیونکہ تُو مُقدّس زمین پر کھڑا ہے۔
سپس خداوند فرمود: 'نعلین‌ات را بیرون بیاور چون در مكان مقدّسی ایستاده‌ای.
مَیں نے مصر میں اپنی قوم کی بُری حالت دیکھی اور اُن کی آہیں سنی ہیں، اِس لئے اُنہیں بچانے کے لئے اُتر آیا ہوں۔ اب جا، مَیں تجھے مصر بھیجتا ہوں۔‘
البتّه آن ظلمی را كه در مصر نسبت به قوم من می‌شود دیده و آه و ناله‌هایشان را شنیده‌ام و برای نجات آنان آمده‌ام، برخیز تو را به مصر می‌فرستم.'
یوں اللہ نے اُس شخص کو اُن کے پاس بھیج دیا جسے وہ یہ کہہ کر رد کر چکے تھے کہ ’کس نے آپ کو ہم پر حکمران اور قاضی مقرر کیا ہے؟‘ جلتی ہوئی کانٹےدار جھاڑی میں موجود فرشتے کی معرفت اللہ نے موسیٰ کو اُن کے پاس بھیج دیا تاکہ وہ اُن کا حکمران اور نجات دہندہ بن جائے۔
«آری همان موسی را كه آنان رد كرده و به او گفته بودند: 'چه كسی تو را حاكم و قاضی ما كرده است؟' خدا به وسیلهٔ فرشته‌ای كه در بوته به او ظاهر شد حكمران و رهاننده گردانید.
اور وہ معجزے اور الٰہی نشان دکھا کر اُنہیں مصر سے نکال لایا، پھر بحرِ قُلزم سے گزر کر 40 سال کے دوران ریگستان میں اُن کی راہنمائی کی۔
این موسی بود كه با انجام نشانه‌ها و عجایب در مصر و در راه دریای سرخ، بنی‌اسرائیل را به خارج از مصر هدایت كرد و مدّت چهل سال در بیابان عهده‌دار رهبری آنان بود.
موسیٰ نے خود اسرائیلیوں کو بتایا، ’اللہ تمہارے واسطے تمہارے بھائیوں میں سے مجھ جیسے نبی کو برپا کرے گا۔‘
باز هم موسی بود كه به بنی‌اسرائیل فرمود: 'خدا از بین شما نبی‌ای مانند من برایتان برمی‌انگیزد.'
موسیٰ ریگستان میں قوم کی جماعت میں شریک تھا۔ ایک طرف وہ اُس فرشتے کے ساتھ تھا جو سینا پہاڑ پر اُس سے باتیں کرتا تھا، دوسری طرف ہمارے باپ دادا کے ساتھ۔ فرشتے سے اُسے زندگی بخش باتیں مل گئیں جو اُسے ہمارے سپرد کرنی تھیں۔
و او بود كه در اجتماع بنی‌اسرائیل در بیابان حضور داشت و با فرشته در كوه سینا و با اجداد ما گفت‌وگو كرد و پیام زندهٔ الهی را دریافت نمود تا آن را به ما نیز برساند.
لیکن ہمارے باپ دادا نے اُس کی سننے سے انکار کر کے اُسے رد کر دیا۔ دل ہی دل میں وہ مصر کی طرف رجوع کر چکے تھے۔
«امّا نیاکان ما رهبری او را نپذیرفتند و دست رد بر سینه‌اش زدند و آرزو داشتند به مصر برگردند
وہ ہارون سے کہنے لگے، ’آئیں، ہمارے لئے دیوتا بنا دیں جو ہمارے آگے آگے چلتے ہوئے ہماری راہنمائی کریں۔ کیونکہ کیا معلوم کہ اُس بندے موسیٰ کو کیا ہوا ہے جو ہمیں مصر سے نکال لایا۔‘
و از هارون خواستند برای ایشان خدایانی بسازد كه پیشاپیش آنان بروند و گفتند: 'ما نمی‌دانیم بر سر آن موسایی كه ما را از مصر بیرون آورد چه آمده است.'
اُسی وقت اُنہوں نے بچھڑے کا بُت بنا کر اُسے قربانیاں پیش کیں اور اپنے ہاتھوں کے کام کی خوشی منائی۔
و در آن روزها گوساله‌ای ساختند و در برابر آن بت، قربانی‌های بسیار گذراندند و به افتخار ساخته و پرداختهٔ دست خود جشنی برپا نمودند،
اِس پر اللہ نے اپنا منہ پھیر لیا اور اُنہیں ستاروں کی پوجا کی گرفت میں چھوڑ دیا، بالکل اُسی طرح جس طرح نبیوں کے صحیفے میں لکھا ہے، ’اے اسرائیل کے گھرانے، جب تم ریگستان میں گھومتے پھرتے تھے تو کیا تم نے اُن 40 سالوں کے دوران کبھی مجھے ذبح اور غلہ کی قربانیاں پیش کیں؟
لیكن خدا از آنان روی گردان شد و ایشان را به پرستش ستارگان آسمانی واگذاشت. همان‌طور كه در كتاب انبیا مكتوب است: 'ای قوم اسرائیل آیا طی این چهل سال برای من در بیابان قربانی كرده‌اید یا هدیه‌ای تقدیم داشته‌اید؟
نہیں، اُس وقت بھی تم مولک دیوتا کا تابوت اور رفان دیوتا کا ستارہ اُٹھائے پھرتے تھے، گو تم نے اپنے ہاتھوں سے یہ بُت پوجا کرنے کے لئے بنا لئے تھے۔ اِس لئے مَیں تمہیں جلاوطن کر کے بابل کے پار بسا دوں گا۔‘
خیر، بلكه شما خیمهٔ مولک و پیكرهٔ خدای ستارهٔ خود رمفان را با خود حمل می‌كردید، آنها بُتهایی بودند كه برای پرستش ساخته بودید پس شما را به آن‌سوی بابل تبعید خواهم كرد.'
ریگستان میں ہمارے باپ دادا کے پاس ملاقات کا خیمہ تھا۔ اُسے اُس نمونے کے مطابق بنایا گیا تھا جو اللہ نے موسیٰ کو دکھایا تھا۔
«اجداد ما در بیابان خیمهٔ مقدّس داشتند و این خیمه همان چیزی است كه خدا به موسی دستور داد كه طبق آن نمونه‌ای كه قبلاً دیده بود بسازد.
موسیٰ کی موت کے بعد ہمارے باپ دادا نے اُسے ورثے میں پا کر اپنے ساتھ لے لیا جب اُنہوں نے یشوع کی راہنمائی میں اِس ملک میں داخل ہو کر اُس پر قبضہ کر لیا۔ اُس وقت اللہ اُس میں آباد قوموں کو اُن کے آگے آگے نکالتا گیا۔ یوں ملاقات کا خیمہ داؤد بادشاہ کے زمانے تک ملک میں رہا۔
نیاکان ما در نسل بعد در آن وقت كه زمین كنعان را به تصرّف درآورده بودند، یعنی وقتی خدا اقوام دیگر را از سر راهشان برمی‌داشت، آن خیمه را به همراهی یوشع با خود آوردند و تا زمان داوود آن خیمه در آنجا ماند.
داؤد اللہ کا منظورِ نظر تھا۔ اُس نے یعقوب کے خدا کو ایک سکونت گاہ مہیا کرنے کی اجازت مانگی۔
داوود مورد لطف خدا واقع شد و تقاضا نمود كه به او اجازه داده شود مسكنی برای خدای یعقوب بنا نماید.
لیکن سلیمان کو اُس کے لئے مکان بنانے کا اعزاز حاصل ہوا۔
ولی این سلیمان بود كه خانه‌ای برای خدا ساخت.
حقیقت میں اللہ تعالیٰ انسان کے ہاتھ کے بنائے ہوئے مکانوں میں نہیں رہتا۔ نبی رب کا فرمان یوں بیان کرتا ہے،
«امّا خدای متعال در مسكن‌های ساختهٔ دست بشر ساكن نمی‌شود. چنانکه نبی فرموده است:
’آسمان میرا تخت ہے اور زمین میرے پاؤں کی چوکی، تو پھر تم میرے لئے کس قسم کا گھر بناؤ گے؟ وہ جگہ کہاں ہے جہاں مَیں آرام کروں گا؟
'آسمان تخت من و زمین پای‌انداز من است. برای من چه خانه‌ای خواهید ساخت؟
کیا میرے ہاتھ نے یہ سب کچھ نہیں بنایا؟‘
استراحتگاه من كجاست؟ آیا دست خود من جمیع این چیزها را نساخته است؟'
اے گردن کش لوگو! بےشک آپ کا ختنہ ہوا ہے جو اللہ کی قوم کا ظاہری نشان ہے۔ لیکن اُس کا آپ کے دلوں اور کانوں پر کچھ بھی اثر نہیں ہوا۔ آپ اپنے باپ دادا کی طرح ہمیشہ روح القدس کی مخالفت کرتے رہتے ہیں۔
«ای‌ گردنكشان كه از دل و گوش كافرید و گوشهایتان كر است. شما هم مثل اجداد خود همیشه به ضد روح‌القدس مقاومت می‌كنید.
کیا کبھی کوئی نبی تھا جسے آپ کے باپ دادا نے نہ ستایا؟ اُنہوں نے اُنہیں بھی قتل کیا جنہوں نے راست باز مسیح کی پیش گوئی کی، اُس شخص کی جسے آپ نے دشمنوں کے حوالے کر کے مار ڈالا۔
كدام نبی‌ای از دست اجداد شما جفا ندید؟ آنان كسانی را كه دربارهٔ آمدن آن یكتای عادل پیشگویی می‌کردند كشتند، و در زمان ما، شما به خود او خیانت كردید و او را به قتل رساندید.
آپ ہی کو فرشتوں کے ہاتھ سے اللہ کی شریعت حاصل ہوئی مگر اُس پر عمل نہیں کیا۔“
آری شما شریعت را كه توسط فرشتگان به شما رسید قبول كردید امّا از اطاعت آن سر باز زدید.»
ستفنس کی یہ باتیں سن کر اجلاس کے لوگ طیش میں آ کر دانت پیسنے لگے۔
اعضای شورا از شنیدن این سخنان چنان به خشم آمدند كه دندانهای خود را به هم می‌ساییدند.
لیکن ستفنس روح القدس سے معمور اپنی نظر اُٹھا کر آسمان کی طرف تکنے لگا۔ وہاں اُسے اللہ کا جلال نظر آیا، اور عیسیٰ اللہ کے دہنے ہاتھ کھڑا تھا۔
امّا استیفان پر از روح‌القدس، به آسمان چشم دوخت و جلال خدا و عیسی را كه در دست راست خدا ایستاده بود
اُس نے کہا، ”دیکھو، مجھے آسمان کھلا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور ابنِ آدم اللہ کے دہنے ہاتھ کھڑا ہے!“
دید و گفت: «ببینید من هم اكنون آسمان را گشوده و پسر انسان را در دست راست خدا ایستاده می‌بینم.»
یہ سنتے ہی اُنہوں نے چیخ چیخ کر ہاتھوں سے اپنے کانوں کو بند کر لیا اور مل کر اُس پر جھپٹ پڑے۔
در این هنگام فریاد بلندی از حاضران برخاست. آنها گوشهای خود را گرفتند و به سوی او حمله كردند،
پھر وہ اُسے شہر سے نکال کر سنگسار کرنے لگے۔ اور جن لوگوں نے اُس کے خلاف گواہی دی تھی اُنہوں نے اپنی چادریں اُتار کر ایک جوان آدمی کے پاؤں میں رکھ دیں۔ اُس آدمی کا نام ساؤل تھا۔
او را از شهر بیرون انداخته سنگسار نمودند. کسانی‌که علیه او شهادت داده بودند، لباسهای خود را كندند و پیش پای جوانی به نام شائول گذاشتند.
جب وہ ستفنس کو سنگسار کر رہے تھے تو اُس نے دعا کر کے کہا، ”اے خداوند عیسیٰ، میری روح کو قبول کر۔“
وقتی استیفان را سنگسار می‌کردند او با فریاد گفت: «ای عیسی، ای خداوند روح مرا بپذیر.»
پھر گھٹنے ٹیک کر اُس نے اونچی آواز سے کہا، ”اے خداوند، اُنہیں اِس گناہ کے ذمہ دار نہ ٹھہرا۔“ یہ کہہ کر وہ انتقال کر گیا۔
سپس به زانو افتاد و با صدای بلند گفت: «خداوندا، این گناه را به حساب ایشان نگذار.» این را گفت و جان سپرد.