II Samuel 13

داؤد کے بیٹے ابی سلوم کی خوب صورت بہن تھی جس کا نام تمر تھا۔ اُس کا سوتیلا بھائی امنون تمر سے شدید محبت کرنے لگا۔
ابشالوم، پسر داوود خواهر زیبایی به نام تامار داشت. پسر دیگر داوود که اَمنون نام داشت عاشق تامار شد.
وہ تمر کو اِتنی شدت سے چاہنے لگا کہ رنجش کے باعث بیمار ہو گیا، کیونکہ تمر کنواری تھی، اور امنون کو اُس کے قریب آنے کا کوئی راستہ نظر نہ آیا۔
عشق تامار آن‌قدر او را رنج می‌داد که سرانجام بیمار شد. چون تامار باکره بود، امکان نداشت که امنون با او رابطه‌ای داشته باشد.
امنون کا ایک دوست تھا جس کا نام یوندب تھا۔ وہ داؤد کے بھائی سِمعہ کا بیٹا تھا اور بڑا ذہین تھا۔
امنون دوست هوشیار و زیرکی داشت به نام یوناداب. او پسر شمعه، برادر داوود بود.
اُس نے امنون سے پوچھا، ”بادشاہ کے بیٹے، کیا مسئلہ ہے؟ روز بہ روز آپ زیادہ بجھے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ کیا آپ مجھے نہیں بتائیں گے کہ بات کیا ہے؟“ امنون بولا، ”مَیں ابی سلوم کی بہن تمر سے شدید محبت کرتا ہوں۔“
یک روز یوناداب به اَمنون گفت: «ای شاهزاده، چرا روز به روز لاغر می‌شوی و چرا به من نمی‌گویی چه مشکلی داری؟» اَمنون گفت: «من تامار، خواهر ناتنی‌ام را دوست دارم.»
یوندب نے اپنے دوست کو مشورہ دیا، ”بستر پر لیٹ جائیں اور ایسا ظاہر کریں گویا بیمار ہیں۔ جب آپ کے والد آپ کا حال پوچھنے آئیں گے تو اُن سے درخواست کرنا، ’میری بہن تمر آ کر مجھے مریضوں کا کھانا کھلائے۔ وہ میرے سامنے کھانا تیار کرے تاکہ مَیں اُسے دیکھ کر اُس کے ہاتھ سے کھانا کھاؤں‘۔“
یوناداب به او گفت: «برو به بستر و وانمود کن که مریض هستی. وقتی‌ که پدرت به دیدنت آمد از او خواهش کن که به خواهرت تامار اجازه بدهد که پیش رویت غذا تهیّه کند و خود او به تو غذا بدهد.»
چنانچہ امنون نے بستر پر لیٹ کر بیمار ہونے کا بہانہ کیا۔ جب بادشاہ اُس کا حال پوچھنے آیا تو امنون نے گزارش کی، ”میری بہن تمر میرے پاس آئے اور میرے سامنے مریضوں کا کھانا بنا کر مجھے اپنے ہاتھ سے کھلائے۔“
پس اَمنون به بستر رفت و وانمود کرد که مریض است. وقتی‌که پادشاه به دیدنش آمد، اَمنون از او خواهش کرده گفت: «لطفاً اجازه بده تا تامار به اینجا بیاید و برایم خوراک بپزد تا بتوانم او را ببینم و او با دستهای خودش غذا را به من بدهد.»
داؤد نے تمر کو اطلاع دی، ”آپ کا بھائی امنون بیمار ہے۔ اُس کے پاس جا کر اُس کے لئے مریضوں کا کھانا تیار کریں۔“
آنگاه داوود به تامار پیام فرستاد و گفت: «به خانهٔ برادرت برو و برای او غذا بپز.»
تمر نے امنون کے پاس آ کر اُس کی موجودگی میں میدہ گوندھا اور کھانا تیار کر کے پکایا۔ امنون بستر پر لیٹا اُسے دیکھتا رہا۔
پس تامار به خانهٔ امنون رفت و امنون در اتاق خواب خود روی بستر دراز کشیده بود. تامار کمی آرد گرفت و خمیر کرد و نان پخت.
جب کھانا پک گیا تو تمر نے اُسے امنون کے پاس لا کر پیش کیا۔ لیکن اُس نے کھانے سے انکار کر دیا۔ اُس نے حکم دیا، ”تمام نوکر کمرے سے باہر نکل جائیں!“ جب سب چلے گئے
بعد آن را در یک سینی برای او برد. امّا امنون از خوردن خودداری کرد و گفت: «هیچ‌کس در خانه نباشد. همه را بیرون کن.» بنابراین خانه خالی شد.
تو اُس نے تمر سے کہا، ”کھانے کو میرے سونے کے کمرے میں لے آئیں تاکہ مَیں آپ کے ہاتھ سے کھا سکوں۔“ تمر کھانے کو لے کر سونے کے کمرے میں اپنے بھائی کے پاس آئی۔
آنگاه امنون به تامار گفت: «نان را در اتاق خواب بیاور و به من بده.»
جب وہ اُسے کھانا کھلانے لگی تو امنون نے اُسے پکڑ کر کہا، ”آ میری بہن، میرے ساتھ ہم بستر ہو!“
وقتی تامار نان را برای او به اتاق خوابش برد، اَمنون از دست او گرفت و گفت: «بیا خواهر عزیزم، با من در بستر بخواب.»
وہ پکاری، ”نہیں، میرے بھائی! میری عصمت دری نہ کریں۔ ایسا عمل اسرائیل میں منع ہے۔ ایسی بےدین حرکت مت کرنا!
تامار گفت: «نه، برادر، مرا وادار به این کار نکن. چنین کار شرم‌آوری در اسرائیل روی نداده است. نباید رسوایی به بار بیاوری.
اور ایسی بےحرمتی کے بعد مَیں کہاں جاؤں؟ جہاں تک آپ کا تعلق ہے اسرائیل میں آپ کی بُری طرح بدنامی ہو جائے گی، اور سب سمجھیں گے کہ آپ نہایت شریر آدمی ہیں۔ آپ بادشاہ سے بات کیوں نہیں کرتے؟ یقیناً وہ آپ کو مجھ سے شادی کرنے سے نہیں روکیں گے۔“
می‌دانی که من شرمنده و رسوا می‌شوم و تو هم یکی از احمقترین مردان اسرائیل به شمار خواهی رفت. برو با پادشاه حرف بزن و او مرا به تو خواهد داد.»
لیکن امنون نے اُس کی نہ سنی بلکہ اُسے پکڑ کر اُس کی عصمت دری کی۔
امّا اَمنون حرف او را نشنید و چون او از تامار قویتر بود مجبورش کرد که با او همبستر شود.
لیکن پھر اچانک اُس کی محبت سخت نفرت میں بدل گئی۔ پہلے تو وہ تمر سے شدید محبت کرتا تھا، لیکن اب وہ اِس سے بڑھ کر اُس سے نفرت کرنے لگا۔ اُس نے حکم دیا، ”اُٹھ، دفع ہو جا!“
ناگهان اَمنون از تامار متنفّر شد. نفرت او شدیدتر از عشقی بود که قبلاً به او داشت. پس به تامار گفت که فوراً از خانه‌اش خارج شود.
تمر نے التماس کی، ”ہائے، ایسا مت کرنا۔ اگر آپ مجھے نکالیں گے تو یہ پہلے گناہ سے زیادہ سنگین جرم ہو گا۔“ لیکن امنون اُس کی سننے کے لئے تیار نہ تھا۔
تامار گفت: «نه، ای برادر این کار غلط است، زیرا اگر مرا از خانه بیرون کنی، این کار تو بدتر از جنایتی خواهد بود که قبلاً مرتکب شدی.» امّا اَمنون نخواست او را بشنود
اُس نے اپنے نوکر کو بُلا کر حکم دیا، ”اِس عورت کو یہاں سے نکال دو اور اِس کے پیچھے دروازہ بند کر کے کنڈی لگاؤ!“
و خادم خود را صدا کرد و گفت: «بیا این زن را از نزد من بیرون ببر و در را پشت سرش ببند.»
نوکر تمر کو باہر لے گیا اور پھر اُس کے پیچھے دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی۔ تمر ایک لمبے بازوؤں والا فراک پہنے ہوئے تھی۔ بادشاہ کی تمام کنواری بیٹیاں یہی لباس پہنا کرتی تھیں۔
پس خادم اَمنون او را از خانه بیرون کرد و در را پشت سرش بست. تامار ردای بلندِ آستین‌دار به تن داشت، زیرا در آن زمان دختران باکرهٔ پادشاه آن‌گونه ردا می‌پوشیدند.
بڑی رنجش کے عالم میں اُس نے اپنا یہ لباس پھاڑ کر اپنے سر پر راکھ ڈال لی۔ پھر اپنا ہاتھ سر پر رکھ کر وہ چیختی چلّاتی وہاں سے چلی گئی۔
تامار خاکستر بر سر خود ریخت، لباس خود را پاره کرد و درحالی‌که دستهای خود را بر سر گذاشته بود فریادکنان از آنجا رفت.
جب گھر پہنچ گئی تو ابی سلوم نے اُس سے پوچھا، ”میری بہن، کیا امنون نے آپ سے زیادتی کی ہے؟ اب خاموش ہو جائیں۔ وہ تو آپ کا بھائی ہے۔ اِس معاملے کو حد سے زیادہ اہمیت مت دینا۔“ اُس وقت سے تمر اکیلی ہی اپنے بھائی ابی سلوم کے گھر میں رہی۔
ابشالوم از تامار پرسید: «آیا برادرت این کار را با تو کرده است؟ آرام باش. غصّه نخور. او برادر توست.» تامار در خانهٔ ابشالوم در غم و پریشانی به سر می‌برد.
جب داؤد کو اِس واقعے کی خبر ملی تو اُسے سخت غصہ آیا۔
هنگامی‌که داوود پادشاه این خبر را شنید، بسیار خشمگین شد. ولی پسر خود اَمنون را سرزنش نکرد. چون او پسر اولش بود. او را بسیار دوست می‌داشت.
ابی سلوم نے امنون سے ایک بھی بات نہ کی۔ نہ اُس نے اُس پر کوئی الزام لگایا، نہ کوئی اچھی بات کی، کیونکہ تمر کی عصمت دری کی وجہ سے وہ اپنے بھائی سے سخت نفرت کرنے لگا تھا۔
ابشالوم از اَمنون به‌خاطر این عمل متنفّر شد ولی خاموش ماند.
دو سال گزر گئے۔ ابی سلوم کی بھیڑیں افرائیم کے قریب کے بعل حصور میں لائی گئیں تاکہ اُن کے بال کترے جائیں۔ اِس موقع پر ابی سلوم نے بادشاہ کے تمام بیٹوں کو دعوت دی کہ وہ وہاں ضیافت میں شریک ہوں۔
دو سال از آن ماجرا گذشت. پشم‌چینان ابشالوم در نزدیکی افرایم، پشم گوسفندان او را می‌چیدند. و ابشالوم تمام برادران خود را در آن مراسم دعوت کرد.
وہ داؤد بادشاہ کے پاس بھی گیا اور کہا، ”اِن دنوں میں مَیں اپنی بھیڑوں کے بال کترا رہا ہوں۔ بادشاہ اور اُن کے افسروں کو بھی میرے ساتھ خوشی منانے کی دعوت ہے۔“
ابشالوم پیش پادشاه رفت و او و مأمورینش را به جشن پشم‌چینی دعوت کرد.
لیکن داؤد نے انکار کیا، ”نہیں، میرے بیٹے، ہم سب تو نہیں آ سکتے۔ اِتنے لوگ آپ کے لئے بوجھ کا باعث بن جائیں گے۔“ ابی سلوم بہت اصرار کرتا رہا، لیکن داؤد نے دعوت کو قبول نہ کیا بلکہ اُسے برکت دے کر رُخصت کرنا چاہتا تھا۔
پادشاه گفت: «خیر فرزندم، اگر همهٔ ما بیاییم برایت بسیار زحمت می‌شود.» ابشالوم بسیار اصرار کرد، امّا پادشاه نپذیرفت. از او تشکّر کرد و برکتش داد.
آخرکار ابی سلوم نے درخواست کی، ”اگر آپ ہمارے ساتھ جا نہ سکیں تو پھر کم از کم میرے بھائی امنون کو آنے دیں۔“ بادشاہ نے پوچھا، ”خاص کر امنون کو کیوں؟“
ابشالوم گفت: «اگر شما نمی‌توانید بیایید، به برادرم اَمنون اجازه دهید که بیاید.» پادشاه پرسید: «چرا می‌خواهی اَمنون بیاید؟»
لیکن ابی سلوم اِتنا زور دیتا رہا کہ داؤد نے امنون کو باقی بیٹوں سمیت بعل حصور جانے کی اجازت دے دی۔
امّا چون ابشالوم بسیار پافشاری کرد، پادشاه اجازه داد که اَمنون و همهٔ پسران دیگرش با او بروند.
ضیافت سے پہلے ابی سلوم نے اپنے ملازموں کو حکم دیا، ”سنیں! جب امنون مَے پی پی کر خوش ہو جائے گا تو مَیں آپ کو امنون کو مارنے کا حکم دوں گا۔ پھر آپ کو اُسے مار ڈالنا ہے۔ ڈریں مت، کیونکہ مَیں ہی نے آپ کو یہ حکم دیا ہے۔ مضبوط اور دلیر ہوں!“
بعد ابشالوم به خادمان خود امر کرد: «صبر کنید تا اَمنون مست شراب شود. زمانی که اشاره کردم فوراً وی را بکشید و نترسید، زیرا به دستور من این کار را می‌کنید. پس دلیر و شجاع باشید.»
ملازموں نے ایسا ہی کیا۔ اُنہوں نے امنون کو مار ڈالا۔ یہ دیکھ کر بادشاہ کے دوسرے بیٹے اُٹھ کر اپنے خچروں پر سوار ہوئے اور بھاگ گئے۔
بنابراین خادمان ابشالوم امر سرور خود را بجا آورده، امنون را کشتند. پسران دیگر پادشاه بر قاطرهای خود سوار شدند و از ترس جان خود فرار کردند.
وہ ابھی راستے میں ہی تھے کہ افواہ داؤد تک پہنچی، ”ابی سلوم نے آپ کے تمام بیٹوں کو قتل کر دیا ہے۔ ایک بھی نہیں بچا۔“
وقتی آنها هنوز در راه بودند به داوود خبر رسید که ابشالوم همهٔ پسران او را کشته و کسی از‌ آنها زنده نمانده است.
بادشاہ اُٹھا اور اپنے کپڑے پھاڑ کر فرش پر لیٹ گیا۔ اُس کے درباری بھی دُکھ میں اپنے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر اُس کے پاس کھڑے رہے۔
آنگاه پادشاه برخاست و لباس خود را پاره کرد و بر روی زمین دراز کشید. همهٔ خدمتکارانش با جامه‌های دریده در اطرافش ایستاده بودند.
پھر داؤد کا بھتیجا یوندب بول اُٹھا، ”میرے آقا، آپ نہ سوچیں کہ اُنہوں نے تمام شہزادوں کو مار ڈالا ہے۔ صرف امنون مر گیا ہو گا، کیونکہ جب سے اُس نے تمر کی عصمت دری کی اُس وقت سے ابی سلوم کا یہی ارادہ تھا۔
امّا یوناداب، برادرزادهٔ داوود پسر شمعه گفت: «خاطرتان جمع باشد، همهٔ آنها کشته نشده‌اند. تنها اَمنون مرده است. ابشالوم از همان روزی که امنون به خواهرش تامار تجاوز کرد، نقشهٔ کشتن او را در سر داشت و چنین تصمیم گرفته بود.
لہٰذا اِس خبر کو اِتنی اہمیت نہ دیں کہ تمام بیٹے ہلاک ہوئے ہیں۔ صرف امنون مر گیا ہو گا۔“
خبری که شنیدید حقیقت ندارد. همان‌طور که گفتم به غیراز اَمنون همهٔ پسران پادشاه زنده هستند.»
اِتنے میں ابی سلوم فرار ہو گیا تھا۔ پھر یروشلم کی فصیل پر کھڑے پہرے دار نے اچانک دیکھا کہ مغرب سے لوگوں کا بڑا گروہ شہر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ پہاڑی کے دامن میں چلے آ رہے تھے۔
ابشالوم فرار کرد. کسانی‌که مراقب و محافظ شهر بودند، جمعیّت بزرگی را دیدند که از جادهٔ کنار کوه به طرف شهر می‌آیند.
تب یوندب نے بادشاہ سے کہا، ”لو، بادشاہ کے بیٹے آ رہے ہیں، جس طرح آپ کے خادم نے کہا تھا۔“
یوناداب به پادشاه گفت: «آنها پسران تو هستند که می‌آیند درست همان‌طور که به تو گفتم.»
وہ ابھی اپنی بات ختم کر ہی رہا تھا کہ شہزادے اندر آئے اور خوب رو پڑے۔ بادشاہ اور اُس کے افسر بھی رونے لگے۔
همین که حرفش تمام شد، پسران پادشاه رسیدند و همگی با صدای بلند گریه کردند. پادشاه و مأمورینش هم به تلخی گریستند.
داؤد بڑی دیر تک امنون کا ماتم کرتا رہا۔ لیکن ابی سلوم نے فرار ہو کر جسور کے بادشاہ تلمی بن عمی ہود کے پاس پناہ لی جو اُس کا نانا تھا۔
ابشالوم گریخت و پیش تلمای پسر عمیهود، پادشاه جشور رفت و داوود هر روزه برای پسر خود گریه و زاری می‌کرد.
وہاں وہ تین سال تک رہا۔
ابشالوم مدّت سه سال در جشور ماند.
پھر ایک وقت آ گیا کہ داؤد کا امنون کے لئے دُکھ دُور ہو گیا، اور اُس کا ابی سلوم پر غصہ تھم گیا۔
اکنون داوود غم مرگ اَمنون را فراموش کرده بود و دلش می‌خواست ابشالوم را ببیند.