I Samuel 14

ایک دن یونتن نے اپنے جوان سلاح بردار سے کہا، ”آؤ، ہم پرلی طرف جائیں جہاں فلستی فوج کی چوکی ہے۔“ لیکن اُس نے اپنے باپ کو اطلاع نہ دی۔
یک روز یوناتان به جوانی که اسلحه او را حمل می‌کرد گفت: «بیا تا به اردوگاه فلسطینیان که در آن طرف است برویم.» او این امر را به پدر خود اطّلاع نداد.
ساؤل اُس وقت انار کے درخت کے سائے میں بیٹھا تھا جو جِبعہ کے قریب کے مجرون میں تھا۔ 600 مرد اُس کے پاس تھے۔
شائول با ششصد نفر از سربازان خود در نزدیکی جبعه در مغرون، زیر یک درخت انار اردو زده بود.
اخیاہ امام بھی ساتھ تھا جو امام کا بالاپوش پہنے ہوئے تھا۔ اخیاہ یکبود کے بھائی اخی طوب کا بیٹا تھا۔ اُس کا دادا فینحاس اور پردادا عیلی تھا، جو پرانے زمانے میں سَیلا میں رب کا امام تھا۔ کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ یونتن چلا گیا ہے۔
در بین مردان او اخیای کاهن حضور داشت. (اخیا برادر ایخابود، پسر فینحاس و نوهٔ عیلی) وی کاهن خداوند در شیلوه بود. او جامهٔ مخصوص کاهنان را دربر داشت. مردم نمی‌دانستند که یوناتان آنجا را ترک کرده است.
فلستی چوکی تک پہنچنے کے لئے یونتن نے ایک تنگ راستہ اختیار کیا جو دو کڑاڑوں کے درمیان سے گزرتا تھا۔ پہلے کا نام بوصیص تھا، اور وہ شمال میں مِکماس کے مقابل تھا۔ دوسرے کا نام سنہ تھا، اور وہ جنوب میں جِبع کے مقابل تھا۔
یوناتان برای اینکه به استحکامات نظامی فلسطینیان برسد می‌بایست از گذرگاه باریکی که بین دو صخرهٔ تیز به نامهای بوصیص و سِنَّه بود، بگذرد.
فلستی چوکی تک پہنچنے کے لئے یونتن نے ایک تنگ راستہ اختیار کیا جو دو کڑاڑوں کے درمیان سے گزرتا تھا۔ پہلے کا نام بوصیص تھا، اور وہ شمال میں مِکماس کے مقابل تھا۔ دوسرے کا نام سنہ تھا، اور وہ جنوب میں جِبع کے مقابل تھا۔
یکی از آن دو صخره به طرف شمال، مقابل مخماس و دیگری به طرف جنوب مقابل جبعه قرار داشت.
یونتن نے اپنے جوان سلاح بردار سے کہا، ”آؤ، ہم پرلی طرف جائیں جہاں اِن نامختونوں کی چوکی ہے۔ شاید رب ہماری مدد کرے، کیونکہ اُس کے نزدیک کوئی فرق نہیں کہ ہم زیادہ ہوں یا کم۔“
یوناتان به جوان همراه خود گفت: «بیا تا به اردوگاه فلسطینیان کافر برویم. امید است که خداوند به ما کمک بکند، زیرا تعداد دشمن چه کم باشد، چه زیاد، در برابر قدرت خداوند ناچیز است.»
اُس کا سلاح بردار بولا، ”جو کچھ آپ ٹھیک سمجھتے ہیں، وہی کریں۔ ضرور جائیں۔ جو کچھ بھی آپ کہیں گے، مَیں حاضر ہوں۔“
جوان همراهش گفت: «هرچه صلاح می‌دانی بکن، من با نظر تو موافقم.»
یونتن بولا، ”ٹھیک ہے۔ پھر ہم یوں دشمنوں کی طرف بڑھتے جائیں گے، کہ ہم اُنہیں صاف نظر آئیں۔
یوناتان گفت: «پس بیا به آنجا برویم. ما خود را به آنها نشان می‌دهیم.
اگر وہ ہمیں دیکھ کر پکاریں، ’رُک جاؤ، ورنہ ہم تمہیں مار دیں گے!‘ تو ہم اپنے منصوبے سے باز آ کر اُن کے پاس نہیں جائیں گے۔
اگر گفتند: 'حرکت نکنید تا ما پیش شما بیاییم،' ما در جای خود می‌ایستیم و پیش آنها نمی‌رویم.
لیکن اگر وہ پکاریں، ’آؤ، ہمارے پاس آ جاؤ!‘ تو ہم ضرور اُن کے پاس چڑھ جائیں گے۔ کیونکہ یہ اِس کا نشان ہو گا کہ رب اُنہیں ہمارے قبضے میں کر دے گا۔“
امّا اگر گفتند که پیش آنها برویم، در آن صورت می‌رویم، زیرا این نشانهٔ آن است که خداوند آنها را به دست ما تسلیم می‌کند.»
چنانچہ وہ چلتے چلتے فلستی چوکی کو نظر آئے۔ فلستی شور مچانے لگے، ”دیکھو، اسرائیلی اپنے چھپنے کے بلوں سے نکل رہے ہیں!“
پس آنها خود را به سپاهیان فلسطینیان نشان دادند و فلسطینیان گفتند: «عبرانیان را ببینید که از غارهایی که در آنها پنهان شده بودند، بیرون آمده‌اند.»
چوکی کے فوجیوں نے دونوں کو چیلنج کیا، ”آؤ، ہمارے پاس آؤ تو ہم تمہیں سبق سکھائیں گے۔“ یہ سن کر یونتن نے اپنے سلاح بردار کو آواز دی، ”آؤ، میرے پیچھے چلو! رب نے اُنہیں اسرائیل کے حوالے کر دیا ہے۔“
آنها یوناتان و جوان همراهش را صدا کرده گفتند: «اینجا بیایید تا چیزی را به شما نشان بدهیم.» یوناتان به جوان همراه خود گفت: «پشت سر من بیا، خداوند آنها را به دست ما تسلیم می‌کند.»
دونوں اپنے ہاتھوں اور پیروں کے بل چڑھتے چڑھتے چوکی تک جا پہنچے۔ جب یونتن آگے آگے چل کر فلستیوں کے پاس پہنچ گیا تو وہ اُس کے سامنے گرتے گئے۔ ساتھ ساتھ سلاح بردار پیچھے سے لوگوں کو مارتا گیا۔
یوناتان به حالت سینه‌خیز درحالی‌که همراهش پشت سرش می‌آمد، پیش آنها بالا رفت و به فلسطینیان حمله کرد. یوناتان آنها را به زمین می‌انداخت و جوان همراهش که پشت سرش بود، آنها را می‌کشت.
اِس پہلے حملے کے دوران اُنہوں نے تقریباً 20 آدمیوں کو مار ڈالا۔ اُن کی لاشیں آدھ ایکڑ زمین پر بکھری پڑی تھیں۔
در همان حملهٔ اول، یوناتان و همراهش در حدود بیست نفر آنها را در یک جریب زمین هلاک کردند.
اچانک پوری فوج میں دہشت پھیل گئی، نہ صرف لشکرگاہ بلکہ کھلے میدان میں بھی۔ چوکی کے مرد اور لُوٹنے والے دستے بھی تھرتھرانے لگے۔ ساتھ ساتھ زلزلہ آیا۔ رب نے تمام فلستی فوجیوں کے دلوں میں دہشت پیدا کی۔
تمام فلسطینیان چه در اردوگاه و چه در بیرون و حتّی سربازان از ترس به لرزه افتادند. در آن هنگام زلزلهٔ شدیدی رخ داد و آنها را بیشتر به وحشت انداخت.
ساؤل کے جو پہرے دار جِبعہ سے دشمن کی حرکتوں پر غور کر رہے تھے اُنہوں نے اچانک دیکھا کہ فلستی فوج میں ہل چل مچ گئی ہے، افرا تفری کبھی اِس طرف، کبھی اُس طرف بڑھ رہی ہے۔
نگهبانان شائول در جبعهٔ بنیامین دیدند که سپاه عظیم فلسطینیان سراسیمه به هر طرف می‌دوند.
ساؤل نے فوراً حکم دیا، ”فوجیوں کو گن کر معلوم کرو کہ کون چلا گیا ہے۔“ معلوم ہوا کہ یونتن اور اُس کا سلاح بردار موجود نہیں ہیں۔
آنگاه شائول به همراهان خود گفت: «ببینید چه کسانی غایب هستند.» وقتی جستجو کردند دیدند که یوناتان و کسی‌که اسلحهٔ او را حمل می‌کرد حاضر نبودند.
ساؤل نے اخیاہ کو حکم دیا، ”عہد کا صندوق لے آئیں۔“ کیونکہ وہ اُن دنوں میں اسرائیلی کیمپ میں تھا۔
پس شائول به اخیا گفت که صندوق پیمان خداوند را پیش او بیاورد. چون صندوق خداوند در آن وقت پیش قوم اسرائیل بود.
لیکن ساؤل ابھی اخیاہ سے بات کر رہا تھا کہ فلستی لشکرگاہ میں ہنگامہ اور شور بہت زیادہ بڑھ گیا۔ ساؤل نے امام سے کہا، ”کوئی بات نہیں، رہنے دیں۔“
هنگامی که شائول با کاهن حرف می‌زد، شورش در اردوی فلسطینیان شدیدتر شد و شائول به کاهن گفت: «صبر کن!»
وہ اپنے 600 افراد کو لے کر فوراً دشمن پر ٹوٹ پڑا۔ جب اُن تک پہنچ گئے تو معلوم ہوا کہ فلستی ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں، اور ہر طرف ہنگامہ ہی ہنگامہ ہے۔
پس شائول و همراهانش همگی برای جنگ رفتند و دیدند که فلسطینیان برضد یکدیگر شمشیر کشیده، خودشان یکدیگر را می‌کشند.
فلستیوں نے کافی اسرائیلیوں کو اپنی فوج میں شامل کر لیا تھا۔ اب یہ لوگ فلستیوں کو چھوڑ کر ساؤل اور یونتن کے پیچھے ہو لئے۔
آن عدّه از عبرانیانی که قبلاً در اردوی فلسطینیان بودند به طرفداری از مردم اسرائیل که با شائول و یوناتان بودند علیه فلسطینیان داخل جنگ شدند.
اِن کے علاوہ جو اسرائیلی افرائیم کے پہاڑی علاقے میں اِدھر اُدھر چھپ گئے تھے، جب اُنہیں خبر ملی کہ فلستی بھاگ رہے ہیں تو وہ بھی اُن کا تعاقب کرنے لگے۔
همچنین اسرائیلیانی که در کوهستان افرایم خود را پنهان کرده بودند وقتی خبر فرار فلسطینیان را شنیدند به جنگ دشمن رفتند.
لڑتے لڑتے میدانِ جنگ بیت آون تک پھیل گیا۔ اِس طرح رب نے اُس دن اسرائیلیوں کو بچا لیا۔
خداوند در آن روز قوم اسرائیل را پیروز ساخت و جنگ از حدود بیت‌آون هم گذشت.
اُس دن اسرائیلی سخت لڑائی کے باعث بڑی مصیبت میں تھے۔ اِس لئے ساؤل نے قَسم کھا کر کہا، ”اُس پر لعنت جو شام سے پہلے کھانا کھائے۔ پہلے مَیں اپنے دشمن سے انتقام لوں گا، پھر ہی سب کھا پی سکتے ہیں۔“ اِس وجہ سے کسی نے روٹی کو ہاتھ تک نہ لگایا۔
اسرائیلی‌ها در آن روز از گرسنگی ناتوان شده بودند؛ زیرا شائول گفته بود: «تا من انتقام خود را از دشمنان نگیرم، نباید کسی دست به غذا بزند و اگر کسی این کار را بکند، لعنت بر او باد!» بنابراین آن روز هیچ‌کسی غذا نخورده بود.
پوری فوج جنگل میں داخل ہوئی تو وہاں زمین پر شہد کے چھتے تھے۔
مردم به جنگلی رسیدند و دیدند که عسل بروی زمین جاری است
تمام لوگ جب اُن کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ اُن سے شہد ٹپک رہا ہے۔ لیکن کسی نے تھوڑا بھی لے کر کھانے کی جرٲت نہ کی، کیونکہ سب ساؤل کی لعنت سے ڈرتے تھے۔
و در همه‌جای جنگل عسل به فراوانی پیدا می‌شد، ولی از ترس سوگندی که شائول خورده بود، کسی به آن دست نزد.
یونتن کو لعنت کا علم نہ تھا، اِس لئے اُس نے اپنی لاٹھی کا سرا کسی چھتے میں ڈال کر اُسے چاٹ لیا۔ اُس کی آنکھیں فوراً چمک اُٹھیں، اور وہ تازہ دم ہو گیا۔
امّا یوناتان چون از فرمان پدر خود بی‌اطّلاع بود، نوک عصایی را که در دست داشت داخل کندوی عسل کرده آن را خورد و حالش بهتر شد.
کسی نے دیکھ کر یونتن کو بتایا، ”آپ کے باپ نے فوج سے قَسم کھلا کر اعلان کیا ہے کہ اُس پر لعنت جو اِس دن کچھ کھائے۔ اِسی وجہ سے ہم سب اِتنے نڈھال ہو گئے ہیں۔“
یکی از حاضرین به او گفت: «ما همگی از گرسنگی بی‌حال هستیم، چون پدرت گفته است: 'لعنت بر آن کسی‌که امروز چیزی بخورد.'»
یونتن نے جواب دیا، ”میرے باپ نے ملک کو مصیبت میں ڈال دیا ہے! دیکھو، اِس تھوڑے سے شہد کو چکھنے سے میری آنکھیں کتنی چمک اُٹھیں اور مَیں کتنا تازہ دم ہو گیا۔
یوناتان جواب داد: «پدرم بیهوده مردم را زحمت می‌دهد. می‌بینی که فقط با چشیدن یک ذره عسل چقدر حالم بهتر شد.
بہتر ہوتا کہ ہمارے لوگ دشمن سے لُوٹے ہوئے مال میں سے کچھ نہ کچھ کھا لیتے۔ لیکن اِس حالت میں ہم فلستیوں کو کس طرح زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں؟“
بهتر بود اگر پدرم به مردم اجازه می‌داد تا از غذایی که از دشمنان به دست آورده‌اند بخورند، آنگاه می‌توانستند تعداد زیادتری از فلسطینیان را بکشند.»
اُس دن اسرائیلی فلستیوں کو مِکماس سے مار مار کر ایالون تک پہنچ گئے۔ لیکن شام کے وقت وہ نہایت نڈھال ہو گئے تھے۔
آن روز مردم اسرائیل فلسطینیان را از مخماس تا ایلون تعقیب کرده می‌کشتند و در اثر گرسنگی ضعیف شده بودند.
پھر وہ لُوٹے ہوئے ریوڑوں پر ٹوٹ پڑے۔ اُنہوں نے جلدی جلدی بھیڑبکریوں، گائےبَیلوں اور بچھڑوں کو ذبح کیا۔ بھوک کی شدت کی وجہ سے اُنہوں نے خون کو صحیح طور سے نکلنے نہ دیا بلکہ جانوروں کو زمین پر چھوڑ کر گوشت کو خون سمیت کھانے لگے۔
پس به حیواناتی که به غنیمت گرفته بودند حمله کرده گاوها و گوسفندان را سر می‌بریدند و گوشت آنها را با خون می‌خوردند.
کسی نے ساؤل کو اطلاع دی، ”دیکھیں، لوگ رب کا گناہ کر رہے ہیں، کیونکہ وہ گوشت کھا رہے ہیں جس میں اب تک خون ہے۔“ یہ سن کر ساؤل پکار اُٹھا، ”آپ رب سے وفادار نہیں رہے!“ پھر اُس نے ساتھ والے آدمیوں کو حکم دیا، ”کوئی بڑا پتھر لُڑھکا کر اِدھر لے آئیں!
کسی به شائول خبر داده گفت: «مردم با خوردن خون در مقابل خداوند گناه می‌کنند.» شائول گفت: «شما خیانت کرده‌‌‌اید. حالا یک سنگ بزرگ را پیش من بغلطانید
پھر تمام آدمیوں کے پاس جا کر اُنہیں بتا دینا، ’اپنے جانوروں کو میرے پاس لے آئیں تاکہ اُنہیں پتھر پر ذبح کر کے کھائیں۔ ورنہ آپ خون آلودہ گوشت کھا کر رب کا گناہ کریں گے‘۔“ سب مان گئے۔ اُس شام وہ ساؤل کے پاس آئے اور اپنے جانوروں کو پتھر پر ذبح کیا۔
و بعد بروید و به مردم بگویید که گاوان و گوسفندان را به اینجا بیاورند و بکشند و بخورند و با خوردن خون، پیش خداوند گناه نکنند.» پس همه در آن شب گاوان را آورده در آنجا کشتند.
وہاں ساؤل نے پہلی دفعہ رب کی تعظیم میں قربان گاہ بنائی۔
شائول برای خداوند قربانگاهی ساخت و آن اولین قربانگاهی بود که برای خداوند بنا کرد.
پھر اُس نے اعلان کیا، ”آئیں، ہم ابھی اِسی رات فلستیوں کا تعاقب کر کے اُن میں لُوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھیں تاکہ ایک بھی نہ بچے۔“ فوجیوں نے جواب دیا، ”ٹھیک ہے، وہ کچھ کریں جو آپ کو مناسب لگے۔“ لیکن امام بولا، ”پہلے ہم اللہ سے ہدایت لیں۔“
سپس شائول گفت: «بیایید بر فلسطینیان شبیخون بزنیم و تا صبح هیچ‌کدام آنها را زنده نگذاریم.» مردم گفتند: «هرچه صلاح می‌دانی بکن.» امّا کاهن گفت: «اول با خدا مشورت کنیم.»
چنانچہ ساؤل نے اللہ سے پوچھا، ”کیا ہم فلستیوں کا تعاقب جاری رکھیں؟ کیا تُو اُنہیں اسرائیل کے حوالے کر دے گا؟“ لیکن اِس مرتبہ اللہ نے جواب نہ دیا۔
شائول از خدا پرسید: «آیا به تعقیب فلسطینیان برویم؟ آیا به ما کمک می‌کنی که آنها را مغلوب سازیم؟» امّا خدا در آن شب به او جوابی نداد.
یہ دیکھ کر ساؤل نے فوج کے تمام راہنماؤں کو بُلا کر کہا، ”کسی نے گناہ کیا ہے۔ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ کون قصوروار ہے۔
بعد شائول به رهبران قوم گفت: «باید معلوم کنیم که چه کسی از ما مرتکب گناه شده است.
رب کی حیات کی قَسم جو اسرائیل کا نجات دہندہ ہے، قصوروار کو فوراً سزائے موت دی جائے گی، خواہ وہ میرا بیٹا یونتن کیوں نہ ہو۔“ لیکن سب خاموش رہے۔
به نام خداوند که آزادی بخش اسرائیل است قسم می‌خوردم که گناهکار باید کشته شود، حتّی اگر پسرم یوناتان باشد.» امّا کسی چیزی نگفت.
تب ساؤل نے دوبارہ اعلان کیا، ”پوری فوج ایک طرف کھڑی ہو جائے اور یونتن اور مَیں دوسری طرف۔“ لوگوں نے جواب دیا، ”جو آپ کو مناسب لگے وہ کریں۔“
آنگاه شائول به قوم اسرائیل گفت: «همهٔ شما آن طرف بایستید و یوناتان و من این طرف می‌ایستیم.» مردم جواب دادند: «تو هرچه که بهتر است انجام بده.»
پھر ساؤل نے رب اسرائیل کے خدا سے دعا کی، ”اے رب، ہمیں دکھا کہ کون قصوروار ہے!“ جب قرعہ ڈالا گیا تو یونتن اور ساؤل کے گروہ کو قصوروار قرار دیا گیا اور باقی فوج کو بےقصور۔
شائول با دعا به خداوند گفت: «خداوندا، ای خدای اسرائیل، چرا به سؤال این بنده‌ات جوابی ندادی؟ آیا من و یوناتان گناهی کرده‌ایم یا گناه به گردن دیگران است؟ خداوندا، گناهکار را به ما نشان بده.» سپس قرعه انداختند، قرعه به نام شائول و یوناتان درآمد.
پھر ساؤل نے حکم دیا، ”اب قرعہ ڈال کر پتا کریں کہ مَیں قصوروار ہوں یا یونتن۔“ جب قرعہ ڈالا گیا تو یونتن قصوروار ٹھہرا۔
طبق دستور شائول، بین خود او و یوناتان قرعه انداختند. این بار قرعه به نام یوناتان درآمد.
ساؤل نے پوچھا، ”بتائیں، آپ نے کیا کِیا؟“ یونتن نے جواب دیا، ”مَیں نے صرف تھوڑا سا شہد چکھ لیا جو میری لاٹھی کے سرے پر لگا تھا۔ لیکن مَیں مرنے کے لئے تیار ہوں۔“
آنگاه شائول به یوناتان گفت: «راست بگو چه کرده‌ای؟» یوناتان جواب داد: «کمی عسل را با نوک عصای دست خود گرفته خوردم. برای مردن حاضرم.»
ساؤل نے کہا، ”یونتن، اللہ مجھے سخت سزا دے اگر مَیں آپ کو اِس کے لئے سزائے موت نہ دوں۔“
شائول گفت: «بلی، تو حتماً باید کشته شوی. خدا مرا بکشد، اگر تو کشته نشوی.»
لیکن فوجیوں نے اعتراض کیا، ”یہ کیسی بات ہے؟ یونتن ہی نے اپنے زبردست حملے سے اسرائیل کو آج بچا لیا ہے۔ اُسے کس طرح سزائے موت دی جا سکتی ہے؟ کبھی نہیں! اللہ کی حیات کی قَسم، اُس کا ایک بال بھی بیکا نہیں ہو گا، کیونکہ آج اُس نے اللہ کی مدد سے فتح پائی ہے۔“ یوں فوجیوں نے یونتن کو موت سے بچا لیا۔
ولی سربازان به شائول گفتند: «امروز یوناتان قوم اسرائیل را نجات داد. غیر ممکن است که او کشته شود. به نام خداوند قسم نمی‌گذاریم حتّی یک تار موی او هم کم شود، زیرا امروز به وسیلهٔ او بود که خداوند معجزهٔ بزرگی نشان داد.» به این ترتیب مردم شفاعت کرده یوناتان را از مرگ نجات دادند.
تب ساؤل نے فلستیوں کا تعاقب کرنا چھوڑ دیا اور اپنے گھر چلا گیا۔ فلستی بھی اپنے ملک میں واپس چلے گئے۔
بعد شائول، فرمان بازگشت سپاه خود را صادر کرد و فلسطینیان هم به وطن خود برگشتند.
جب ساؤل تخت نشین ہوا تو وہ ملک کے ارد گرد کے تمام دشمنوں سے لڑا۔ اِن میں موآب، عمون، ادوم، ضوباہ کے بادشاہ اور فلستی شامل تھے۔ اور جہاں بھی جنگ چھڑی وہاں اُس نے فتح پائی۔
وقتی شائول پادشاه اسرائیل شد، با همهٔ دشمنان، از قبیل موآبیان، عمونیان، اَدومیان، پادشاهان صوبه و فلسطینیان جنگید و در همهٔ جنگها پیروز شد.
وہ نہایت بہادر تھا۔ اُس نے عمالیقیوں کو بھی شکست دی اور یوں اسرائیل کو اُن تمام دشمنوں سے بچا لیا جو بار بار ملک کی لُوٹ مار کرتے تھے۔
او با شجاعت تمام عمالیقیان را شکست داد و قوم اسرائیل را از دست دشمنان نجات داد.
ساؤل کے تین بیٹے تھے، یونتن، اِسوی اور ملکی شوع۔ اُس کی بڑی بیٹی میرب اور چھوٹی بیٹی میکل تھی۔
شائول سه پسر داشت به نامهای یوناتان، یشوی و ملکیشوع. او همچنین دارای دو دختر بود. دختر بزرگش میرب و دختر کوچکش میکال نام داشت.
بیوی کا نام اخی نوعم بنت اخی معض تھا۔ ساؤل کی فوج کا کمانڈر ابنیر تھا، جو ساؤل کے چچا نیر کا بیٹا تھا۔
زن شائول، اخینوعام دختر اخیمعاص بود و فرماندهٔ ارتش او، ابنیر پسر نیر عموی شائول بود.
ساؤل کا باپ قیس اور ابنیر کا باپ نیر سگے بھائی تھے جن کا باپ ابی ایل تھا۔
قیس پدر شائول و نیر پدر ابنیر و پسران ابیئیل بودند.
ساؤل کے جیتے جی فلستیوں سے سخت جنگ جاری رہی۔ اِس لئے جب بھی کوئی بہادر اور لڑنے کے قابل آدمی نظر آیا تو ساؤل نے اُسے اپنی فوج میں بھرتی کر لیا۔
در تمام دوران سلطنت شائول، اسرائیل و فلسطینیان همیشه در جنگ بودند و شائول هر شخص نیرومند و شجاعی را که می‌دید، به خدمت سپاه خود در می‌آورد.