I Kings 3

سلیمان فرعون کی بیٹی سے شادی کر کے مصری بادشاہ کا داماد بن گیا۔ شروع میں اُس کی بیوی شہر کے اُس حصے میں رہتی تھی جو ’داؤد کا شہر‘ کہلاتا تھا۔ کیونکہ اُس وقت نیا محل، رب کا گھر اور شہر کی فصیل زیرِ تعمیر تھے۔
سلیمان با فرعون پیمان دوستی بست و با دختر او ازدواج کرد. سلیمان دختر فرعون را به شهر داوود آورد تا ساختن کاخ خود، معبد بزرگ و دیوارهای اورشلیم را به پایان برساند.
اُن دنوں میں رب کے نام کا گھر تعمیر نہیں ہوا تھا، اِس لئے اسرائیلی اپنی قربانیاں مختلف اونچی جگہوں پر چڑھاتے تھے۔
چون تا آن زمان هنوز معبدی ساخته نشده بود. مردم اسرائیل در روی تپّه‌ها قربانی می‌کردند.
سلیمان رب سے پیار کرتا تھا اور اِس لئے اپنے باپ داؤد کی تمام ہدایات کے مطابق زندگی گزارتا تھا۔ لیکن وہ بھی جانوروں کی اپنی قربانیاں اور بخور ایسے ہی مقاموں پر رب کو پیش کرتا تھا۔
سلیمان خداوند را دوست داشت و مطابق فرمانهای پدر خود، داوود رفتار می‌کرد، ولی هنوز هم قربانی‌ها و نذرهای خود را در روی تپّه‌ها تقدیم می‌نمود.
ایک دن بادشاہ جِبعون گیا اور وہاں بھسم ہونے والی 1,000 قربانیاں چڑھائیں، کیونکہ اُس شہر کی اونچی جگہ قربانیاں چڑھانے کا سب سے اہم مرکز تھی۔
روزی پادشاه برای قربانی کردن به جبعون رفت؛ زیرا مشهورترین قربانگاه در آنجا بود. تا آن زمان او صدها قربانی سوختنی در آنجا تقدیم کرده بود.
جب وہ وہاں ٹھہرا ہوا تھا تو رب خواب میں اُس پر ظاہر ہوا اور فرمایا، ”تیرا دل کیا چاہتا ہے؟ مجھے بتا دے تو مَیں تیری خواہش پوری کروں گا۔“
در جبعون، سلیمان خداوند را در خواب دید. خداوند به او گفت: «چه می‌خواهی تا به تو بدهم؟»
سلیمان نے جواب دیا، ”تُو میرے باپ داؤد پر بڑی مہربانی کر چکا ہے۔ وجہ یہ تھی کہ تیرا خادم وفاداری، انصاف اور خلوص دلی سے تیرے حضور چلتا رہا۔ تیری اُس پر مہربانی آج تک جاری رہی ہے، کیونکہ تُو نے اُس کا بیٹا اُس کی جگہ تخت نشین کر دیا ہے۔
سلیمان پاسخ داد: «تو همیشه به پدرم داوود، محبّت فراوان نشان داده‌ای. او خدمتگزار نیکو و وفاداری بود و در رابطه‌اش با تو صادق بود و تو با دادن پسری كه امروز به جایش سلطنت كند، به محبّت خود ادامه داده‌ای و مهر جاودان و پایدار خود را آشکار کرده‌ای.
اے رب میرے خدا، تُو نے اپنے خادم کو میرے باپ داؤد کی جگہ تخت پر بٹھا دیا ہے۔ لیکن مَیں ابھی چھوٹا بچہ ہوں جسے اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر سنبھالنے کا تجربہ نہیں ہوا۔
ای خداوند، تو مرا پادشاه و جانشین پدرم کردی، با وجودی که بسیار جوان هستم و نمی‌دانم چگونه حکومت کنم.
توبھی تیرے خادم کو تیری چنی ہوئی قوم کے بیچ میں کھڑا کیا گیا ہے، اِتنی عظیم قوم کے درمیان کہ اُسے گنا نہیں جا سکتا۔
اینجا من در میان مردم برگزیدهٔ تو هستم، قومی که تعدادشان بی‌شمار است.
چنانچہ مجھے سننے والا دل عطا فرما تاکہ مَیں تیری قوم کا انصاف کروں اور صحیح اور غلط باتوں میں امتیاز کر سکوں۔ کیونکہ کون تیری اِس عظیم قوم کا انصاف کر سکتا ہے؟“
پس به من حکمت بده تا بتوانم با قوم تو، به عدالت رفتار کنم و بتوانم فرق بین خوبی و بدی را تشخیص دهم. در غیر این صورت من چگونه می‌توانم بر این قوم عظیم تو حکمرانی کنم.»
سلیمان کی یہ درخواست رب کو پسند آئی،
خداوند از این درخواست سلیمان خشنود گشت
اِس لئے اُس نے جواب دیا، ”مَیں خوش ہوں کہ تُو نے نہ عمر کی درازی، نہ دولت اور نہ اپنے دشمنوں کی ہلاکت بلکہ امتیاز کرنے کی صلاحیت مانگی ہے تاکہ سن کر انصاف کر سکے۔
و به او فرمود: «چون تو خواستار حکمت گشتی تا با عدالت حکومت کنی و نه عمر طولانی و ثروت برای خود یا مرگ دشمنانت،
اِس لئے مَیں تیری درخواست پوری کر کے تجھے اِتنا دانش مند اور سمجھ دار بنا دوں گا کہ اُتنا نہ ماضی میں کوئی تھا، نہ مستقبل میں کبھی کوئی ہو گا۔
آنچه را که خواسته‌ای به تو خواهم داد. من به تو چنان اندیشه‌ای خردمند و بینشی روشن می‌دهم که هیچ‌کس مثل تو نداشته و نخواهد داشت.
بلکہ تجھے وہ کچھ بھی دے دوں گا جو تُو نے نہیں مانگا، یعنی دولت اور عزت۔ تیرے جیتے جی کوئی اَور بادشاہ تیرے برابر نہیں پایا جائے گا۔
همچنین، آنچه را هم که درخواست نکرده‌ای، به تو خواهم داد، یعنی ثروت و افتخار که تا زنده هستی، هیچ پادشاهی به پای تو نرسد.
اگر تُو میری راہوں پر چلتا رہے اور اپنے باپ داؤد کی طرح میرے احکام کے مطابق زندگی گزارے تو پھر مَیں تیری عمر دراز کروں گا۔“
اگر در راه من گام برداری و مانند پدرت داوود از احکام و فرامین من پیروی کنی، به تو عمری دراز خواهم بخشید.»
سلیمان جاگ اُٹھا تو معلوم ہوا کہ مَیں نے خواب دیکھا ہے۔ وہ یروشلم کو واپس چلا گیا اور رب کے عہد کے صندوق کے سامنے کھڑا ہوا۔ وہاں اُس نے بھسم ہونے والی اور سلامتی کی قربانیاں پیش کیں، پھر بڑی ضیافت کی جس میں تمام درباری شریک ہوئے۔
سلیمان بیدار شد و دانست که خداوند در رؤیا با او سخن گفته است. سپس به اورشلیم رفت و در برابر صندوق پیمان خداوند ایستاد و قربانی‌های سوختنی و سلامتی تقدیم کرد و برای درباریان خود جشنی برپا نمود.
ایک دن دو کسبیاں بادشاہ کے پاس آئیں۔
یک روز دو زن فاحشه نزد پادشاه آمدند و در حضور او ایستادند.
ایک بات کرنے لگی، ”میرے آقا، ہم دونوں ایک ہی گھر میں بستی ہیں۔ کچھ دیر پہلے اِس کی موجودگی میں گھر میں میرے بچہ پیدا ہوا۔
یکی از آن دو زن گفت: «سرورم، من و این زن در یک خانه زندگی می‌کنیم. چندی پیش کودکی به دنیا آوردم.
دو دن کے بعد اِس کے بھی بچہ ہوا۔ ہم اکیلی ہی تھیں، ہمارے سوا گھر میں کوئی اَور نہیں تھا۔
سه روز بعد از تولّد فرزندم، این زن هم صاحب کودکی شد. ما دو نفر تنها بودیم و به جز ما کس دیگری در خانه نبود.
ایک رات کو میری ساتھی کا بچہ مر گیا۔ ماں نے سوتے میں کروٹیں بدلتے بدلتے اپنے بچے کو دبا دیا تھا۔
یک شب او به روی بچّه خود غلطید و او را خفه کرد.
راتوں رات اِسے معلوم ہوا کہ بیٹا مر گیا ہے۔ مَیں ابھی گہری نیند سو رہی تھی۔ یہ دیکھ کر اِس نے میرے بچے کو اُٹھایا اور اپنے مُردے بیٹے کو میری گود میں رکھ دیا۔ پھر وہ میرے بیٹے کے ساتھ سو گئی۔
آنگاه نیمه شب برخاست و پسر مرا از کنارم برداشت و پسر مُردهٔ خود را به جای آن گذاشت.
صبح کے وقت جب مَیں اپنے بیٹے کو دودھ پلانے کے لئے اُٹھی تو دیکھا کہ اُس سے جان نکل گئی ہے۔ لیکن جب دن مزید چڑھا اور مَیں غور سے اُسے دیکھ سکی تو کیا دیکھتی ہوں کہ یہ وہ بچہ نہیں ہے جسے مَیں نے جنم دیا ہے!“
وقتی‌که صبح برخاستم که طفلم را شیر بدهم دیدم که او مُرده است. از نزدیک نگاه کردم، دیدم او پسر من نیست.»
دوسری عورت نے اُس کی بات کاٹ کر کہا، ”ہرگز نہیں! یہ جھوٹ ہے۔ میرا بیٹا زندہ ہے اور تیرا تو مر گیا ہے۔“ پہلی عورت چیخ اُٹھی، ”کبھی بھی نہیں! زندہ بچہ میرا اور مُردہ بچہ تیرا ہے۔“ ایسی باتیں کرتے کرتے دونوں بادشاہ کے سامنے جھگڑتی رہیں۔
زن دومی‌ گفت: «نه، کودک زنده پسر من است. کودک مُرده پسر توست.» زن اولی گفت: «نه، کودک مرده از توست و کودک زنده پسر من است.» به این ترتیب آن دو زن در حضور پادشاه دعوا می‌کردند.
پھر بادشاہ بولا، ”سیدھی سی بات یہ ہے کہ دونوں ہی دعویٰ کرتی ہیں کہ زندہ بچہ میرا ہے اور مُردہ بچہ دوسری کا ہے۔
آنگاه سلیمان پادشاه گفت: «هریک از شما دو نفر مدّعی است که کودک زنده از آن اوست و کودک مرده به دیگری تعلّق دارد.»
ٹھیک ہے، پھر میرے پاس تلوار لے آئیں!“ اُس کے پاس تلوار لائی گئی۔
پس گفت: «یک شمشیر برایم بیاورید.» وقتی شمشیر را آوردند،
تب اُس نے حکم دیا، ”زندہ بچے کو برابر کے دو حصوں میں کاٹ کر ہر عورت کو ایک ایک حصہ دے دیں۔“
او دستور داد: «کودک زنده را نصف کنید و به هر کدام ‌یک قسمت بدهید.»
یہ سن کر بچے کی حقیقی ماں نے جس کا دل اپنے بیٹے کے لئے تڑپتا تھا بادشاہ سے التماس کی، ”نہیں میرے آقا، اُسے مت ماریں! براہِ کرم اُسے اِسی کو دے دیجئے۔“ لیکن دوسری عورت بولی، ”ٹھیک ہے، اُسے کاٹ دیں۔ اگر یہ میرا نہیں ہو گا تو کم از کم تیرا بھی نہیں ہو گا۔“
مادر واقعی که قلبش لبریز از محبّت برای پسرش بود، به پادشاه گفت: «ای پادشاه کودک را نکشید و او را به این زن بدهید.» امّا زن دیگر گفت: «به هیچ‌کدام از ما ندهید و او را دو پاره کنید.»
یہ دیکھ کر بادشاہ نے حکم دیا، ”رُکیں! بچے پر تلوار مت چلائیں بلکہ اُسے پہلی عورت کو دے دیں جو چاہتی ہے کہ زندہ رہے۔ وہی اُس کی ماں ہے۔“
پس سلیمان گفت: «این کودک را نکشید، او را به زن اولی بدهید. او مادر واقعی است.»
جلد ہی سلیمان کے اِس فیصلے کی خبر پورے ملک میں پھیل گئی، اور لوگوں پر بادشاہ کا خوف چھا گیا، کیونکہ اُنہوں نے جان لیا کہ اللہ نے اُسے انصاف کرنے کی خاص حکمت عطا کی ہے۔
هنگامی‌که مردم اسرائیل از قضاوت سلیمان باخبر شدند، همگی با دیدهٔ احترام به او نگریستند، زیرا دانستند که خداوند به او حکمت داده است تا به عدالت قضاوت کند.