John 3

فریسی فرقے کا ایک آدمی بنام نیکدیمس تھا جو یہودی عدالتِ عالیہ کا رُکن تھا۔
كَانَ إِنْسَانٌ مِنَ الْفَرِّيسِيِّينَ اسْمُهُ نِيقُودِيمُوسُ، رَئِيسٌ لِلْيَهُودِ.
وہ رات کے وقت عیسیٰ کے پاس آیا اور کہا، ”اُستاد، ہم جانتے ہیں کہ آپ ایسے اُستاد ہیں جو اللہ کی طرف سے آئے ہیں، کیونکہ جو الٰہی نشان آپ دکھاتے ہیں وہ صرف ایسا شخص ہی دکھا سکتا ہے جس کے ساتھ اللہ ہو۔“
هذَا جَاءَ إِلَى يَسُوعَ لَيْلاً وَقَالَ لَهُ:«يَا مُعَلِّمُ، نَعْلَمُ أَنَّكَ قَدْ أَتَيْتَ مِنَ اللهِ مُعَلِّمًا، لأَنْ لَيْسَ أَحَدٌ يَقْدِرُ أَنْ يَعْمَلَ هذِهِ الآيَاتِ الَّتِي أَنْتَ تَعْمَلُ إِنْ لَمْ يَكُنِ اللهُ مَعَهُ».
عیسیٰ نے جواب دیا، ”مَیں تجھے سچ بتاتا ہوں، صرف وہ شخص اللہ کی بادشاہی کو دیکھ سکتا ہے جو نئے سرے سے پیدا ہوا ہو۔“
أَجَابَ يَسُوعُ وَقَالَ لَهُ:«الْحَقَّ الْحَقَّ أَقُولُ لَكَ: إِنْ كَانَ أَحَدٌ لاَ يُولَدُ مِنْ فَوْقُ لاَ يَقْدِرُ أَنْ يَرَى مَلَكُوتَ اللهِ».
نیکدیمس نے اعتراض کیا، ”کیا مطلب؟ بوڑھا آدمی کس طرح نئے سرے سے پیدا ہو سکتا ہے؟ کیا وہ دوبارہ اپنی ماں کے پیٹ میں جا کر پیدا ہو سکتا ہے؟“
قَالَ لَهُ نِيقُودِيمُوسُ:«كَيْفَ يُمْكِنُ الإِنْسَانَ أَنْ يُولَدَ وَهُوَ شَيْخٌ؟ أَلَعَلَّهُ يَقْدِرُ أَنْ يَدْخُلَ بَطْنَ أُمِّهِ ثَانِيَةً وَيُولَدَ؟»
عیسیٰ نے جواب دیا، ”مَیں تجھے سچ بتاتا ہوں، صرف وہ شخص اللہ کی بادشاہی میں داخل ہو سکتا ہے جو پانی اور روح سے پیدا ہوا ہو۔
أَجَابَ يَسُوعُ:«الْحَقَّ الْحَقَّ أَقُولُ لَكَ: إِنْ كَانَ أَحَدٌ لاَ يُولَدُ مِنَ الْمَاءِ وَالرُّوحِ لاَ يَقْدِرُ أَنْ يَدْخُلَ مَلَكُوتَ اللهِ.
جو کچھ جسم سے پیدا ہوتا ہے وہ جسمانی ہے، لیکن جو روح سے پیدا ہوتا ہے وہ روحانی ہے۔
اَلْمَوْلُودُ مِنَ الْجَسَدِ جَسَدٌ هُوَ، وَالْمَوْلُودُ مِنَ الرُّوحِ هُوَ رُوحٌ.
اِس لئے تُو تعجب نہ کر کہ مَیں کہتا ہوں، ’تمہیں نئے سرے سے پیدا ہونا ضرور ہے۔‘
لاَ تَتَعَجَّبْ أَنِّي قُلْتُ لَكَ: يَنْبَغِي أَنْ تُولَدُوا مِنْ فَوْقُ.
ہَوا جہاں چاہے چلتی ہے۔ تُو اُس کی آواز تو سنتا ہے، لیکن یہ نہیں جانتا کہ کہاں سے آتی اور کہاں کو جاتی ہے۔ یہی حالت ہر اُس شخص کی ہے جو روح سے پیدا ہوا ہے۔“
اَلرِّيحُ تَهُبُّ حَيْثُ تَشَاءُ، وَتَسْمَعُ صَوْتَهَا، لكِنَّكَ لاَ تَعْلَمُ مِنْ أَيْنَ تَأْتِي وَلاَ إِلَى أَيْنَ تَذْهَبُ. هكَذَا كُلُّ مَنْ وُلِدَ مِنَ الرُّوحِ».
نیکدیمس نے پوچھا، ”یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟“
أَجَابَ نِيقُودِيمُوسُ وَقَالَ لَهُ:«كَيْفَ يُمْكِنُ أَنْ يَكُونَ هذَا؟»
عیسیٰ نے جواب دیا، ”تُو تو اسرائیل کا اُستاد ہے۔ کیا اِس کے باوجود بھی یہ باتیں نہیں سمجھتا؟
أَجَابَ يَسُوعُ وَقَالَ لَهُ:«أَنْتَ مُعَلِّمُ إِسْرَائِيلَ وَلَسْتَ تَعْلَمُ هذَا!
مَیں تجھ کو سچ بتاتا ہوں، ہم وہ کچھ بیان کرتے ہیں جو ہم جانتے ہیں اور اُس کی گواہی دیتے ہیں جو ہم نے خود دیکھا ہے۔ توبھی تم لوگ ہماری گواہی قبول نہیں کرتے۔
اَلْحَقَّ الْحَقَّ أَقُولُ لَكَ: إِنَّنَا إِنَّمَا نَتَكَلَّمُ بِمَا نَعْلَمُ وَنَشْهَدُ بِمَا رَأَيْنَا، وَلَسْتُمْ تَقْبَلُونَ شَهَادَتَنَا.
مَیں نے تم کو دنیاوی باتیں سنائی ہیں اور تم اُن پر ایمان نہیں رکھتے۔ تو پھر تم کیونکر ایمان لاؤ گے اگر تمہیں آسمانی باتوں کے بارے میں بتاؤں؟
إِنْ كُنْتُ قُلْتُ لَكُمُ الأَرْضِيَّاتِ وَلَسْتُمْ تُؤْمِنُونَ، فَكَيْفَ تُؤْمِنُونَ إِنْ قُلْتُ لَكُمُ السَّمَاوِيَّاتِ؟
آسمان پر کوئی نہیں چڑھا سوائے ابنِ آدم کے، جو آسمان سے اُترا ہے۔
وَلَيْسَ أَحَدٌ صَعِدَ إِلَى السَّمَاءِ إِلاَّ الَّذِي نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ، ابْنُ الإِنْسَانِ الَّذِي هُوَ فِي السَّمَاءِ.
اور جس طرح موسیٰ نے ریگستان میں سانپ کو لکڑی پر لٹکا کر اونچا کر دیا اُسی طرح ضرور ہے کہ ابنِ آدم کو بھی اونچے پر چڑھایا جائے،
«وَكَمَا رَفَعَ مُوسَى الْحَيَّةَ فِي الْبَرِّيَّةِ هكَذَا يَنْبَغِي أَنْ يُرْفَعَ ابْنُ الإِنْسَانِ،
تاکہ ہر ایک کو جو اُس پر ایمان لائے گا ابدی زندگی مل جائے۔
لِكَيْ لاَ يَهْلِكَ كُلُّ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ بَلْ تَكُونُ لَهُ الْحَيَاةُ الأَبَدِيَّةُ.
کیونکہ اللہ نے دنیا سے اِتنی محبت رکھی کہ اُس نے اپنے اکلوتے فرزند کو بخش دیا، تاکہ جو بھی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ابدی زندگی پائے۔
لأَنَّهُ هكَذَا أَحَبَّ اللهُ الْعَالَمَ حَتَّى بَذَلَ ابْنَهُ الْوَحِيدَ، لِكَيْ لاَ يَهْلِكَ كُلُّ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ، بَلْ تَكُونُ لَهُ الْحَيَاةُ الأَبَدِيَّةُ.
کیونکہ اللہ نے اپنے فرزند کو اِس لئے دنیا میں نہیں بھیجا کہ وہ دنیا کو مجرم ٹھہرائے بلکہ اِس لئے کہ وہ اُسے نجات دے۔
لأَنَّهُ لَمْ يُرْسِلِ اللهُ ابْنَهُ إِلَى الْعَالَمِ لِيَدِينَ الْعَالَمَ، بَلْ لِيَخْلُصَ بِهِ الْعَالَمُ.
جو بھی اُس پر ایمان لایا ہے اُسے مجرم نہیں قرار دیا جائے گا، لیکن جو ایمان نہیں رکھتا اُسے مجرم ٹھہرایا جا چکا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ کے اکلوتے فرزند کے نام پر ایمان نہیں لایا۔
اَلَّذِي يُؤْمِنُ بِهِ لاَ يُدَانُ، وَالَّذِي لاَ يُؤْمِنُ قَدْ دِينَ، لأَنَّهُ لَمْ يُؤْمِنْ بِاسْمِ ابْنِ اللهِ الْوَحِيدِ.
اور لوگوں کو مجرم ٹھہرانے کا سبب یہ ہے کہ گو اللہ کا نور اِس دنیا میں آیا، لیکن لوگوں نے نور کی نسبت اندھیرے کو زیادہ پیار کیا، کیونکہ اُن کے کام بُرے تھے۔
وَهذِهِ هِيَ الدَّيْنُونَةُ: إِنَّ النُّورَ قَدْ جَاءَ إِلَى الْعَالَمِ، وَأَحَبَّ النَّاسُ الظُّلْمَةَ أَكْثَرَ مِنَ النُّورِ، لأَنَّ أَعْمَالَهُمْ كَانَتْ شِرِّيرَةً.
جو بھی غلط کام کرتا ہے وہ نور سے دشمنی رکھتا ہے اور اُس کے قریب نہیں آتا تاکہ اُس کے بُرے کاموں کا پول نہ کھل جائے۔
لأَنَّ كُلَّ مَنْ يَعْمَلُ السَّيِّآتِ يُبْغِضُ النُّورَ، وَلاَ يَأْتِي إِلَى النُّورِ لِئَلاَّ تُوَبَّخَ أَعْمَالُهُ.
لیکن جو سچا کام کرتا ہے وہ نور کے پاس آتا ہے تاکہ ظاہر ہو جائے کہ اُس کے کام اللہ کے وسیلے سے ہوئے ہیں۔“
وَأَمَّا مَنْ يَفْعَلُ الْحَقَّ فَيُقْبِلُ إِلَى النُّورِ، لِكَيْ تَظْهَرَ أَعْمَالُهُ أَنَّهَا بِاللهِ مَعْمُولَةٌ».
اِس کے بعد عیسیٰ اپنے شاگردوں کے ساتھ یہودیہ کے علاقے میں گیا۔ وہاں وہ کچھ دیر کے لئے اُن کے ساتھ ٹھہرا اور لوگوں کو بپتسمہ دینے لگا۔
وَبَعْدَ هذَا جَاءَ يَسُوعُ وَتَلاَمِيذُهُ إِلَى أَرْضِ الْيَهُودِيَّةِ، وَمَكَثَ مَعَهُمْ هُنَاكَ، وَكَانَ يُعَمِّدُ.
اُس وقت یحییٰ بھی شالیم کے قریب واقع مقام عینون میں بپتسمہ دے رہا تھا، کیونکہ وہاں پانی بہت تھا۔ اُس جگہ پر لوگ بپتسمہ لینے کے لئے آتے رہے۔
وَكَانَ يُوحَنَّا أَيْضًا يُعَمِّدُ فِي عَيْنِ نُونٍ بِقُرْبِ سَالِيمَ، لأَنَّهُ كَانَ هُنَاكَ مِيَاهٌ كَثِيرَةٌ، وَكَانُوا يَأْتُونَ وَيَعْتَمِدُونَ .
(یحییٰ کو اب تک جیل میں نہیں ڈالا گیا تھا۔)
لأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُوحَنَّا قَدْ أُلْقِيَ بَعْدُ فِي السِّجْنِ.
ایک دن یحییٰ کے شاگردوں کا کسی یہودی کے ساتھ مباحثہ چھڑ گیا۔ زیرِ غور مضمون دینی غسل تھا۔
وَحَدَثَتْ مُبَاحَثَةٌ مِنْ تَلاَمِيذِ يُوحَنَّا مَعَ يَهُودٍ مِنْ جِهَةِ التَّطْهِيرِ.
وہ یحییٰ کے پاس آئے اور کہنے لگے، ”اُستاد، جس آدمی سے آپ کی دریائے یردن کے پار ملاقات ہوئی اور جس کے بارے میں آپ نے گواہی دی کہ وہ مسیح ہے، وہ بھی لوگوں کو بپتسمہ دے رہا ہے۔ اب سب لوگ اُسی کے پاس جا رہے ہیں۔“
فَجَاءُوا إِلَى يُوحَنَّا وَقَالُوا لَهُ:«يَا مُعَلِّمُ، هُوَذَا الَّذِي كَانَ مَعَكَ فِي عَبْرِ الأُرْدُنِّ، الَّذِي أَنْتَ قَدْ شَهِدْتَ لَهُ، هُوَ يُعَمِّدُ، وَالْجَمِيعُ يَأْتُونَ إِلَيْهِ»
یحییٰ نے جواب دیا، ”ہر ایک کو صرف وہ کچھ ملتا ہے جو اُسے آسمان سے دیا جاتا ہے۔
أجَابَ يُوحَنَّا وَقَالَ:«لاَ يَقْدِرُ إِنْسَانٌ أَنْ يَأْخُذَ شَيْئًا إِنْ لَمْ يَكُنْ قَدْ أُعْطِيَ مِنَ السَّمَاءِ.
تم خود اِس کے گواہ ہو کہ مَیں نے کہا، ’مَیں مسیح نہیں ہوں بلکہ مجھے اُس کے آگے آگے بھیجا گیا ہے۔‘
أَنْتُمْ أَنْفُسُكُمْ تَشْهَدُونَ لِي أَنِّي قُلْتُ: لَسْتُ أَنَا الْمَسِيحَ بَلْ إِنِّي مُرْسَلٌ أَمَامَهُ.
دُولھا ہی دُلھن سے شادی کرتا ہے، اور دُلھن اُسی کی ہے۔ اُس کا دوست صرف ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ اور دُولھے کی آواز سن سن کر دوست کی خوشی کی انتہا نہیں ہوتی۔ مَیں بھی ایسا ہی دوست ہوں جس کی خوشی پوری ہو گئی ہے۔
مَنْ لَهُ الْعَرُوسُ فَهُوَ الْعَرِيسُ، وَأَمَّا صَدِيقُ الْعَرِيسِ الَّذِي يَقِفُ وَيَسْمَعُهُ فَيَفْرَحُ فَرَحًا مِنْ أَجْلِ صَوْتِ الْعَرِيسِ. إِذًا فَرَحِي هذَا قَدْ كَمَلَ.
لازم ہے کہ وہ بڑھتا جائے جبکہ مَیں گھٹتا جاؤں۔
يَنْبَغِي أَنَّ ذلِكَ يَزِيدُ وَأَنِّي أَنَا أَنْقُصُ.
جو آسمان پر سے آیا ہے اُس کا اختیار سب پر ہے۔ جو دنیا سے ہے اُس کا تعلق دنیا سے ہی ہے اور وہ دنیاوی باتیں کرتا ہے۔ لیکن جو آسمان پر سے آیا ہے اُس کا اختیار سب پر ہے۔
اَلَّذِي يَأْتِي مِنْ فَوْقُ هُوَ فَوْقَ الْجَمِيعِ، وَالَّذِي مِنَ الأَرْضِ هُوَ أَرْضِيٌّ، وَمِنَ الأَرْضِ يَتَكَلَّمُ. اَلَّذِي يَأْتِي مِنَ السَّمَاءِ هُوَ فَوْقَ الْجَمِيعِ،
جو کچھ اُس نے خود دیکھا اور سنا ہے اُسی کی گواہی دیتا ہے۔ توبھی کوئی اُس کی گواہی کو قبول نہیں کرتا۔
وَمَا رَآهُ وَسَمِعَهُ بِهِ يَشْهَدُ، وَشَهَادَتُهُ لَيْسَ أَحَدٌ يَقْبَلُهَا.
لیکن جس نے اُسے قبول کیا اُس نے اِس کی تصدیق کی ہے کہ اللہ سچا ہے۔
وَمَنْ قَبِلَ شَهَادَتَهُ فَقَدْ خَتَمَ أَنَّ اللهَ صَادِقٌ،
جسے اللہ نے بھیجا ہے وہ اللہ کی باتیں سناتا ہے، کیونکہ اللہ اپنا روح ناپ تول کر نہیں دیتا۔
لأَنَّ الَّذِي أَرْسَلَهُ اللهُ يَتَكَلَّمُ بِكَلاَمِ اللهِ. لأَنَّهُ لَيْسَ بِكَيْل يُعْطِي اللهُ الرُّوحَ.
باپ اپنے فرزند کو پیار کرتا ہے، اور اُس نے سب کچھ اُس کے سپرد کر دیا ہے۔
اَلآبُ يُحِبُّ الابْنَ وَقَدْ دَفَعَ كُلَّ شَيْءٍ فِي يَدِهِ.
چنانچہ جو اللہ کے فرزند پر ایمان لاتا ہے ابدی زندگی اُس کی ہے۔ لیکن جو فرزند کو رد کرے وہ اِس زندگی کو نہیں دیکھے گا بلکہ اللہ کا غضب اُس پر ٹھہرا رہے گا۔“
الَّذِي يُؤْمِنُ بِالابْنِ لَهُ حَيَاةٌ أَبَدِيَّةٌ، وَالَّذِي لاَ يُؤْمِنُ بِالابْنِ لَنْ يَرَى حَيَاةً بَلْ يَمْكُثُ عَلَيْهِ غَضَبُ اللهِ».