Job 29

Eyüp yine anlatmaya başladı:
ایوب نے اپنی بات جاری رکھ کر کہا،
“Keşke geçen aylar geri gelseydi, Tanrı’nın beni kolladığı,
”کاش مَیں دوبارہ ماضی کے وہ دن گزار سکوں جب اللہ میری دیکھ بھال کرتا تھا،
Kandilinin başımın üstünde parladığı, Işığıyla karanlıkta yürüdüğüm günler,
جب اُس کی شمع میرے سر کے اوپر چمکتی رہی اور مَیں اُس کی روشنی کی مدد سے اندھیرے میں چلتا تھا۔
Keşke olgunluk günlerim geri gelseydi, Tanrı’nın çadırımı dostça koruduğu,
اُس وقت میری جوانی عروج پر تھی اور میرا خیمہ اللہ کے سائے میں رہتا تھا۔
Her Şeye Gücü Yeten’in henüz benimle olduğu, Çocuklarımın çevremde bulunduğu,
قادرِ مطلق میرے ساتھ تھا، اور مَیں اپنے بیٹوں سے گھرا رہتا تھا۔
Yollarımın sütle yıkandığı, Yanımdaki kayanın zeytinyağı akıttığı günler!
کثرت کے باعث میرے قدم دہی سے دھوئے رہتے اور چٹان سے تیل کی ندیاں پھوٹ کر نکلتی تھیں۔
“Kent kapısına gidip Kürsümü meydana koyduğumda,
جب کبھی مَیں شہر کے دروازے سے نکل کر چوک میں اپنی کرسی پر بیٹھ جاتا
Gençler beni görüp gizlenir, Yaşlılar kalkıp ayakta dururlardı;
تو جوان آدمی مجھے دیکھ کر پیچھے ہٹ کر چھپ جاتے، بزرگ اُٹھ کر کھڑے رہتے،
Önderler konuşmaktan çekinir, Elleriyle ağızlarını kaparlardı;
رئیس بولنے سے باز آ کر منہ پر ہاتھ رکھتے،
Soyluların sesi kesilir, Dilleri damaklarına yapışırdı.
شرفا کی آواز دب جاتی اور اُن کی زبان تالو سے چپک جاتی تھی۔
Beni duyan kutlar, Beni gören överdi;
جس کان نے میری باتیں سنیں اُس نے مجھے مبارک کہا، جس آنکھ نے مجھے دیکھا اُس نے میرے حق میں گواہی دی۔
Çünkü yardım isteyen yoksulu, Desteği olmayan öksüzü kurtarırdım.
کیونکہ جو مصیبت میں آ کر آواز دیتا اُسے مَیں بچاتا، بےسہارا یتیم کو چھٹکارا دیتا تھا۔
Ölmekte olanın hayır duasını alır, Dul kadının yüreğini sevinçten coştururdum.
تباہ ہونے والے مجھے برکت دیتے تھے۔ میرے باعث بیواؤں کے دلوں سے خوشی کے نعرے اُبھر آتے تھے۔
Doğruluğu giysi gibi giyindim, Adalet kaftanım ve sarığımdı sanki.
مَیں راست بازی سے ملبّس اور راست بازی مجھ سے ملبّس رہتی تھی، انصاف میرا چوغہ اور پگڑی تھا۔
Körlere göz, Topallara ayaktım.
اندھوں کے لئے مَیں آنکھیں، لنگڑوں کے لئے پاؤں بنا رہتا تھا۔
Yoksullara babalık eder, Garibin davasını üstlenirdim.
مَیں غریبوں کا باپ تھا، اور جب کبھی اجنبی کو مقدمہ لڑنا پڑا تو مَیں غور سے اُس کے معاملے کا معائنہ کرتا تھا تاکہ اُس کا حق مارا نہ جائے۔
Haksızın çenesini kırar, Avını dişlerinin arasından kapardım.
مَیں نے بےدین کا جبڑا توڑ کر اُس کے دانتوں میں سے شکار چھڑایا۔
“ ‘Son soluğumu yuvamda vereceğim’ diye düşünüyordum, ‘Günlerim kum taneleri kadar çok.
اُس وقت میرا خیال تھا، ’مَیں اپنے ہی گھر میں وفات پاؤں گا، سیمرغ کی طرح اپنی زندگی کے دنوں میں اضافہ کروں گا۔
Köküm sulara erişecek, Çiy geceyi dallarımda geçirecek.
میری جڑیں پانی تک پھیلی اور میری شاخیں اوس سے تر رہیں گی۔
Aldığım övgüler tazelenecek, Elimdeki yay yenilenecek.’
میری عزت ہر وقت تازہ رہے گی، اور میرے ہاتھ کی کمان کو نئی تقویت ملتی رہے گی۔‘
“İnsanlar beni saygıyla dinler, Öğüdümü sessizce beklerlerdi.
لوگ میری سن کر خاموشی سے میرے مشوروں کے انتظار میں رہتے تھے۔
Ben konuştuktan sonra onlar konuşmazdı, Sözlerim üzerlerine damlardı.
میرے بات کرنے پر وہ جواب میں کچھ نہ کہتے بلکہ میرے الفاظ ہلکی سی بوندا باندی کی طرح اُن پر ٹپکتے رہتے۔
Yağmuru beklercesine beni bekler, Son yağmurları içercesine sözlerimi içerlerdi.
جس طرح انسان شدت سے بارش کے انتظار میں رہتا ہے اُسی طرح وہ میرے انتظار میں رہتے تھے۔ وہ منہ پسار کر بہار کی بارش کی طرح میرے الفاظ کو جذب کر لیتے تھے۔
Kendilerine gülümsediğimde gözlerine inanmazlardı, Güler yüzlülüğüm onlara cesaret verirdi.
جب مَیں اُن سے بات کرتے وقت مسکراتا تو اُنہیں یقین نہیں آتا تھا، میری اُن پر مہربانی اُن کے نزدیک نہایت قیمتی تھی۔
Onların yolunu ben seçer, başlarında dururdum, Askerlerinin ortasında kral gibi otururdum, Yaslıları avutan biri gibiydim.
مَیں اُن کی راہ اُن کے لئے چن کر اُن کی قیادت کرتا، اُن کے درمیان یوں بستا تھا جس طرح بادشاہ اپنے دستوں کے درمیان۔ مَیں اُس کی مانند تھا جو ماتم کرنے والوں کو تسلی دیتا ہے۔