I Samuel 18

Y ASÍ que él hubo acabado de hablar con Saúl, el alma de Jonathán fué ligada con la de David, y amólo Jonathán como á su alma.
اِس گفتگو کے بعد داؤد کی ملاقات بادشاہ کے بیٹے یونتن سے ہوئی۔ اُن میں فوراً گہری دوستی پیدا ہو گئی، اور یونتن داؤد کو اپنی جان کے برابر عزیز رکھنے لگا۔
Y Saúl le tomó aquel día, y no le dejó volver á casa de su padre.
اُس دن سے ساؤل نے داؤد کو اپنے دربار میں رکھ لیا اور اُسے باپ کے گھر واپس جانے نہ دیا۔
É hicieron alianza Jonathán y David, porque él le amaba como á su alma.
اور یونتن نے داؤد سے عہد باندھا، کیونکہ وہ داؤد کو اپنی جان کے برابر عزیز رکھتا تھا۔
Y Jonathán se desnudó la ropa que tenía sobre sí, y dióla á David, y otras ropas suyas, hasta su espada, y su arco, y su talabarte.
عہد کی تصدیق کے لئے یونتن نے اپنا چوغہ اُتار کر اُسے اپنے زرہ بکتر، تلوار، کمان اور پیٹی سمیت داؤد کو دے دیا۔
Y salía David á donde quiera que Saúl le enviaba, y portábase prudentemente. Hízolo por tanto Saúl capitán de gente de guerra, y era acepto en los ojos de todo el pueblo, y en los ojos de los criados de Saúl.
جہاں بھی ساؤل نے داؤد کو لڑنے کے لئے بھیجا وہاں وہ کامیاب ہوا۔ یہ دیکھ کر ساؤل نے اُسے فوج کا بڑا افسر بنا دیا۔ یہ بات عوام اور ساؤل کے افسروں کو پسند آئی۔
Y aconteció que como volvían ellos, cuando David tornó de matar al Filisteo, salieron las mujeres de todas las ciudades de Israel cantando, y con danzas, con tamboriles, y con alegrías y sonajas, á recibir al rey Saúl.
جب داؤد فلستیوں کو شکست دینے سے واپس آیا تو تمام شہروں سے عورتیں نکل کر ساؤل بادشاہ سے ملنے آئیں۔ دف اور ساز بجاتے ہوئے وہ خوشی کے گیت گا گا کر ناچنے لگیں۔
Y cantaban las mujeres que danzaba, y decían: Saúl hirió sus miles, Y David sus diez miles.
اور ناچتے ناچتے وہ گاتی رہیں، ”ساؤل نے تو ہزار ہلاک کئے جبکہ داؤد نے دس ہزار۔“
Y enojóse Saúl en gran manera, y desagradó esta palabra en sus ojos, y dijo: Á David dieron diez miles, y á mí miles; no le falta más que el reino.
ساؤل بڑے غصے میں آ گیا، کیونکہ عورتوں کا گیت اُسے نہایت بُرا لگا۔ اُس نے سوچا، ”اُن کی نظر میں داؤد نے دس ہزار ہلاک کئے جبکہ مَیں نے صرف ہزار۔ اب صرف یہ بات رہ گئی ہے کہ اُسے بادشاہ مقرر کیا جائے۔“
Y desde aquel día Saúl miró de través á David.
اُس وقت سے ساؤل داؤد کو شک کی نظر سے دیکھنے لگا۔
Otro día aconteció que el espíritu malo de parte de Dios tomó á Saúl, y mostrábase en su casa con trasportes de profeta: y David tañía con su mano como los otros días; y estaba una lanza á mano de Saúl.
اگلے دن اللہ نے دوبارہ ساؤل پر بُری روح آنے دی، اور وہ گھر کے اندر وجد کی حالت میں آ گیا۔ داؤد معمول کے مطابق ساز بجانے لگا تاکہ بادشاہ کو سکون ملے۔ ساؤل کے ہاتھ میں نیزہ تھا۔ اچانک اُس نے اُسے پھینک کر داؤد کو دیوار کے ساتھ چھید ڈالنے کی کوشش کی۔ لیکن داؤد ایک طرف ہٹ کر بچ نکلا۔ ایک اَور دفعہ ایسا ہوا، لیکن داؤد پھر بچ گیا۔
Y arrojó Saúl la lanza, diciendo: Enclavaré á David en la pared. Y dos veces se apartó de él David.
اگلے دن اللہ نے دوبارہ ساؤل پر بُری روح آنے دی، اور وہ گھر کے اندر وجد کی حالت میں آ گیا۔ داؤد معمول کے مطابق ساز بجانے لگا تاکہ بادشاہ کو سکون ملے۔ ساؤل کے ہاتھ میں نیزہ تھا۔ اچانک اُس نے اُسے پھینک کر داؤد کو دیوار کے ساتھ چھید ڈالنے کی کوشش کی۔ لیکن داؤد ایک طرف ہٹ کر بچ نکلا۔ ایک اَور دفعہ ایسا ہوا، لیکن داؤد پھر بچ گیا۔
Mas Saúl se temía de David por cuanto JEHOVÁ era con él, y se había apartado de Saúl.
یہ دیکھ کر ساؤل داؤد سے ڈرنے لگا، کیونکہ اُس نے جان لیا کہ رب مجھے چھوڑ کر داؤد کا حامی بن گیا ہے۔
Apartólo pues Saúl de sí, é hízole capitán de mil; y salía y entraba delante del pueblo.
آخرکار اُس نے داؤد کو دربار سے دُور کر کے ہزار فوجیوں پر مقرر کر دیا۔ اِن آدمیوں کے ساتھ داؤد مختلف جنگوں کے لئے نکلتا رہا۔
Y David se conducía prudentemente en todos sus negocios, y JEHOVÁ era con él.
اور جو کچھ بھی وہ کرتا اُس میں کامیاب رہتا، کیونکہ رب اُس کے ساتھ تھا۔
Y viendo Saúl que se portaba tan prudentemente, temíase de él.
جب ساؤل نے دیکھا کہ داؤد کو کتنی زیادہ کامیابی ہوئی ہے تو وہ اُس سے مزید ڈر گیا۔
Mas todo Israel y Judá amaba á David, porque él salía y entraba delante de ellos.
لیکن اسرائیل اور یہوداہ کے باقی لوگ داؤد سے بہت محبت رکھتے تھے، کیونکہ وہ ہر جنگ میں نکلتے وقت سے لے کر گھر واپس آتے وقت تک اُن کے آگے آگے چلتا تھا۔
Y dijo Saúl á David: He aquí yo te daré á Merab mi hija mayor por mujer: solamente que me seas hombre valiente, y hagas las guerras de JEHOVÁ. Mas Saúl decía: No será mi mano contra él, mas la mano de los Filisteos será contra él.
ایک دن ساؤل نے داؤد سے بات کی، ”مَیں اپنی بڑی بیٹی میرب کا رشتہ آپ کے ساتھ باندھنا چاہتا ہوں۔ لیکن پہلے ثابت کریں کہ آپ اچھے فوجی ہیں، جو رب کی جنگوں میں خوب حصہ لے۔“ لیکن دل ہی دل میں ساؤل نے سوچا، ”خود تو مَیں داؤد پر ہاتھ نہیں اُٹھاؤں گا، بہتر ہے کہ وہ فلستیوں کے ہاتھوں مارا جائے۔“
Y David respondió á Saúl: ¿Quién soy yo, ó qué es mi vida, ó la familia de mi padre en Israel, para ser yerno del rey?
لیکن داؤد نے اعتراض کیا، ”مَیں کون ہوں کہ بادشاہ کا داماد بنوں؟ اسرائیل میں تو میرے خاندان اور آبائی کنبے کی کوئی حیثیت نہیں۔“
Y venido el tiempo en que Merab, hija de Saúl, se había de dar á David, fué dada por mujer á Adriel Meholatita.
توبھی شادی کی تیاریاں کی گئیں۔ لیکن جب مقررہ وقت آ گیا تو ساؤل نے میرب کی شادی ایک اَور آدمی بنام عدری ایل محولاتی سے کروا دی۔
Mas Michâl la otra hija de Saúl amaba á David; y fué dicho á Saúl, lo cual plugo en sus ojos.
اِتنے میں ساؤل کی چھوٹی بیٹی میکل داؤد سے محبت کرنے لگی۔ جب ساؤل کو اِس کی خبر ملی تو وہ خوش ہوا۔
Y Saúl dijo: Yo se la daré, para que le sea por lazo, y para que la mano de los Filisteos sea contra él. Dijo pues Saúl á David: Con la otra serás mi yerno hoy.
اُس نے سوچا، ”اب مَیں بیٹی کا رشتہ اُس کے ساتھ باندھ کر اُسے یوں پھنسا دوں گا کہ وہ فلستیوں سے لڑتے لڑتے مر جائے گا۔“ داؤد سے اُس نے کہا، ”آج آپ کو میرا داماد بننے کا دوبارہ موقع ملے گا۔“
Y mandó Saúl á sus criados: Hablad en secreto á David, diciéndole: He aquí, el rey te ama, y todos sus criados te quieren bien; sé pues yerno del rey.
پھر اُس نے اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ وہ چپکے سے داؤد کو بتائیں، ”سنیں، آپ بادشاہ کو پسند ہیں، اور اُس کے تمام افسر بھی آپ کو پیار کرتے ہیں۔ آپ ضرور بادشاہ کی پیش کش قبول کر کے اُس کا داماد بن جائیں۔“
Y los criados de Saúl hablaron estas palabras á los oídos de David. Y David dijo: ¿Paréceos á vosotros que es poco ser yerno del rey, siendo yo un hombre pobre y de ninguna estima?
لیکن داؤد نے اعتراض کیا، ”کیا آپ کی دانست میں بادشاہ کا داماد بننا چھوٹی سی بات ہے؟ مَیں تو غریب آدمی ہوں، اور میری کوئی حیثیت نہیں۔“
Y los criados de Saúl le dieron la respuesta diciendo: Tales palabras ha dicho David.
ملازموں نے بادشاہ کے پاس واپس جا کر اُسے داؤد کے الفاظ بتائے۔
Y Saúl dijo: Decid así á David: No está el contentamiento del rey en el dote, sino en cien prepucios de Filisteos, para que sea tomada venganza de los enemigos del rey. Mas Saúl pensaba echar á David en manos de los Filisteos.
ساؤل نے اُنہیں پھر داؤد کے پاس بھیج کر اُسے اطلاع دی، ”بادشاہ مَہر کے لئے پیسے نہیں مانگتا بلکہ یہ کہ آپ اُن کے دشمنوں سے بدلہ لے کر 100 فلستیوں کو قتل کر دیں۔ ثبوت کے طور پر آپ کو اُن کا ختنہ کر کے جِلد کا کٹا ہوا حصہ بادشاہ کے پاس لانا پڑے گا۔“ شرط کا مقصد یہ تھا کہ داؤد فلستیوں کے ہاتھوں مارا جائے۔
Y como sus criados declararon á David estas palabras, plugo la cosa en los ojos de David, para ser yerno del rey. Y como el plazo no era aún cumplido,
جب داؤد کو یہ خبر ملی تو اُسے ساؤل کی پیش کش پسند آئی۔ مقررہ وقت سے پہلے
Levantóse David, y partióse con su gente, é hirió doscientos hombres de los Filisteos; y trajo David los prepucios de ellos, y entregáronlos todos al rey, para que él fuese hecho yerno del rey. Y Saúl le dió á su hija Michâl por mujer.
اُس نے اپنے آدمیوں کے ساتھ نکل کر 200 فلستیوں کو مار دیا۔ لاشوں کا ختنہ کر کے وہ جِلد کے کُل 200 ٹکڑے بادشاہ کے پاس لایا تاکہ بادشاہ کا داماد بنے۔ یہ دیکھ کر ساؤل نے اُس کی شادی میکل سے کروا دی۔
Pero Saúl, viendo y considerando que JEHOVÁ era con David, y que su hija Michâl lo amaba,
ساؤل کو ماننا پڑا کہ رب داؤد کے ساتھ ہے اور کہ میری بیٹی میکل اُسے بہت پیار کرتی ہے۔
Temióse más de David; y fué Saúl enemigo de David todos los días.
تب وہ داؤد سے اَور بھی ڈرنے لگا۔ اِس کے بعد وہ جیتے جی داؤد کا دشمن بنا رہا۔
Y salían los príncipes de los Filisteos; y como ellos salían, portábase David más prudentemente que todos los siervos de Saúl: y era su nombre muy ilustre.
اُن دنوں میں فلستی سردار اسرائیل سے لڑتے رہے۔ لیکن جب بھی وہ جنگ کے لئے نکلے تو داؤد ساؤل کے باقی افسروں کی نسبت زیادہ کامیاب ہوتا تھا۔ نتیجے میں اُس کی شہرت پورے ملک میں پھیل گئی۔