Job 21

لطفاً به حرفهای من به دقّت گوش بدهید تا دل من تسلّی یابد.
پھر ایوب نے جواب میں کہا،
لطفاً به حرفهای من به دقّت گوش بدهید تا دل من تسلّی یابد.
”دھیان سے میرے الفاظ سنو! یہی کرنے سے مجھے تسلی دو!
به من فرصت بدهید تا حرفهای خود را بزنم و بعد اگر خواستید، مسخره‌ام کنید.
جب تک مَیں اپنی بات پیش نہ کروں مجھے برداشت کرو، اِس کے بعد اگر چاہو تو میرا مذاق اُڑاؤ۔
من از خدا شکایت دارم نه از انسان، به همین دلیل صبر و طاقتم را از دست داده‌ام.
کیا مَیں کسی انسان سے احتجاج کر رہا ہوں؟ ہرگز نہیں! تو پھر کیا عجب کہ میری روح اِتنی تنگ آ گئی ہے۔
به من نگاه کنید و از تعجّب دست بر دهان بگذارید و ساکت باشید.
مجھ پر نظر ڈالو تو تمہارے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے اور تم حیرانی سے اپنا ہاتھ منہ پر رکھو گے۔
وقتی مصیبت‌هایی را که بر سر من آمده است، به یاد می‌آ‌ورم، تمام بدنم از وحشت به لرزه می‌افتد.
جب کبھی مجھے وہ خیال یاد آتا ہے جو مَیں پیش کرنا چاہتا ہوں تو مَیں دہشت زدہ ہو جاتا ہوں، میرے جسم پر تھرتھراہٹ طاری ہو جاتی ہے۔
چرا مردم بدکار تا سن پیری زنده می‌مانند و به قدرت و جلال می‌رسند؟
خیال یہ ہے کہ بےدین کیوں جیتے رہتے ہیں؟ نہ صرف وہ عمر رسیدہ ہو جاتے بلکہ اُن کی طاقت بڑھتی رہتی ہے۔
ایشان دارای فرزندان و نوه‌ها خواهند شد، و شاهد رشد ایشان خواهند بود.
اُن کے بچے اُن کے سامنے قائم ہو جاتے، اُن کی اولاد اُن کی آنکھوں کے سامنے مضبوط ہو جاتی ہے۔
خانه‌هایشان از هرگونه ترس و خطر در امان است و خدا آنها را جزا نمی‌دهد.
اُن کے گھر محفوظ ہیں۔ نہ کوئی چیز اُنہیں ڈراتی، نہ اللہ کی سزا اُن پر نازل ہوتی ہے۔
تعداد گلّه‌هایشان افزایش می‌یابد و هیچ‌کدام آنها تلف نمی‌شود.
اُن کا سانڈ نسل بڑھانے میں کبھی ناکام نہیں ہوتا، اُن کی گائے وقت پر جنم دیتی، اور اُس کے بچے کبھی ضائع نہیں ہوتے۔
کودکانشان بیرون می‌روند و مانند گوسفندان رقص و پایکوبی می‌کنند.
وہ اپنے بچوں کو باہر کھیلنے کے لئے بھیجتے ہیں تو وہ بھیڑبکریوں کے ریوڑ کی طرح گھر سے نکلتے ہیں۔ اُن کے لڑکے کودتے پھاندتے نظر آتے ہیں۔
با آواز دایره و رباب و نی، از خوشحالی سرود می‌خوانند.
وہ دف اور سرود بجا کر گیت گاتے اور بانسری کی سُریلی آواز نکال کر اپنا دل بہلاتے ہیں۔
بدکاران، عمر خود را در خوشبختی و کامرانی می‌گذرانند و با آسودگی و خاطرِ جمع از دنیا می‌روند.
اُن کی زندگی خوش حال رہتی ہے، وہ ہر دن سے پورا لطف اُٹھاتے اور آخرکار بڑے سکون سے پاتال میں اُتر جاتے ہیں۔
از خدا می‌خواهند که کاری به کارشان نداشته باشد و مایل نیستند که راه راست خدا را بشناسند.
اور یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ سے کہتے ہیں، ’ہم سے دُور ہو جا، ہم تیری راہوں کو جاننا نہیں چاہتے۔
می‌گویند: «قادر مطلق کیست که او را بندگی نماییم؟ چه فایده که پیش او دعا کنیم؟»
قادرِ مطلق کون ہے کہ ہم اُس کی خدمت کریں؟ اُس سے دعا کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہو گا؟‘
آنها ادّعا می‌کنند که سعادتشان نتیجهٔ سعی و کوشش خود آنهاست، امّا من با طرز فکرشان موافق نیستم.
کیا اُن کی خوش حالی اُن کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہوتی؟ کیا بےدینوں کے منصوبے اللہ سے دُور نہیں رہتے؟
آیا تا به حال چراغ شریران خاموش شده یا بلایی بر سرشان آمده است؟ آیا گاهی خدا آنها را از روی غضب خود جزا داده است؟
ایسا لگتا ہے کہ بےدینوں کا چراغ کبھی نہیں بجھتا۔ کیا اُن پر کبھی مصیبت آتی ہے؟ کیا اللہ کبھی قہر میں آ کر اُن پر وہ تباہی نازل کرتا ہے جو اُن کا مناسب حصہ ہے؟
یا مثل کاهی در برابر باد یا مانند خاک در برابر توفان پراکنده کرده است؟
کیا ہَوا کے جھونکے کبھی اُنہیں بھوسے کی طرح اور آندھی کبھی اُنہیں تُوڑی کی طرح اُڑا لے جاتی ہے؟ افسوس، ایسا نہیں ہوتا۔
شما می‌گویید که خدا فرزندان گناهکاران را به عوض آنها مجازات می‌کند، امّا من می‌گویم که خدا باید خود گناهکار را جزا بدهد، تا بداند که خدا از گناه چشم نمی‌پوشد.
شاید تم کہو، ’اللہ اُنہیں سزا دینے کے بجائے اُن کے بچوں کو سزا دے گا۔‘ لیکن مَیں کہتا ہوں کہ اُسے باپ کو ہی سزا دینی چاہئے تاکہ وہ اپنے گناہوں کا نتیجہ خوب جان لے۔
خودشان باید نابودی خود را ببینند و از جام غضب قادر مطلق بنوشند.
اُس کی اپنی ہی آنکھیں اُس کی تباہی دیکھیں، وہ خود قادرِ مطلق کے غضب کا پیالہ پی لے۔
آیا انسان پس از مرگ، زمانی که شمارهٔ ماههایش به سر آیند، نگران خانواده‌اش خواهد بود؟
کیونکہ جب اُس کی زندگی کے مقررہ دن اختتام تک پہنچیں تو اُسے کیا پروا ہو گی کہ میرے بعد گھر والوں کے ساتھ کیا ہو گا۔
آیا کسی می‌تواند به خدایی که داور عالم است، چیزی بیاموزد؟
لیکن کون اللہ کو علم سکھا سکتا ہے؟ وہ تو بلندیوں پر رہنے والوں کی بھی عدالت کرتا ہے۔
برخی از انسانها تا روز آخر زندگیشان از سلامتی برخوردارند؛ آنها با خوشحالی در آسودگی می‌میرند. آنها خوب تغذیه شده‌اند.
ایک شخص وفات پاتے وقت خوب تن درست ہوتا ہے۔ جیتے جی وہ بڑے سکون اور اطمینان سے زندگی گزار سکا۔
برخی از انسانها تا روز آخر زندگیشان از سلامتی برخوردارند؛ آنها با خوشحالی در آسودگی می‌میرند. آنها خوب تغذیه شده‌اند.
اُس کے برتن دودھ سے بھرے رہے، اُس کی ہڈیوں کا گُودا تر و تازہ رہا۔
برخی هم در بدبختی، درحالی‌که لذّتی از زندگی نبرده‌اند، می‌میرند.
دوسرا شخص شکستہ حالت میں مر جاتا ہے اور اُسے کبھی خوش حالی کا لطف نصیب نہیں ہوا۔
امّا همه یکسان به خاک می‌روند و خوراک کرمها می‌شوند.
اب دونوں مل کر خاک میں پڑے رہتے ہیں، دونوں کیڑے مکوڑوں سے ڈھانپے رہتے ہیں۔
من افکار شما را می‌دانم و نقشه‌های کینه‌توزانه‌ای که برای من می‌کشید.
سنو، مَیں تمہارے خیالات اور اُن سازشوں سے واقف ہوں جن سے تم مجھ پر ظلم کرنا چاہتے ہو۔
می‌گویید: «خانهٔ بزرگان و امیران چه شد و آنهایی که کارشان همیشه شرارت بود، کجا هستند؟»
کیونکہ تم کہتے ہو، ’رئیس کا گھر کہاں ہے؟ وہ خیمہ کدھر گیا جس میں بےدین بستے تھے؟ وہ اپنے گناہوں کے سبب سے ہی تباہ ہو گئے ہیں۔‘
بروید از کسانی‌که دنیا را دیده‌اند بپرسید و شرح سفر آنها را بخوانید.
لیکن اُن سے پوچھ لو جو اِدھر اُدھر سفر کرتے رہتے ہیں۔ تمہیں اُن کی گواہی تسلیم کرنی چاہئے
آنگاه خواهید دانست که عموماً اشخاص بدکار در روز بد و مصیبت در امان می‌مانند و از غضب خدا نجات می‌یابند.
کہ آفت کے دن شریر کو صحیح سلامت چھوڑا جاتا ہے، کہ غضب کے دن اُسے رِہائی ملتی ہے۔
کسی نیست که شرایران را متّهم کند و به سزای کارهایشان برساند.
کون اُس کے رُوبرُو اُس کے چال چلن کی ملامت کرتا، کون اُسے اُس کے غلط کام کا مناسب اجر دیتا ہے؟
وقتی می‌میرند با احترام خاصی به خاک سپرده می‌شوند و در آرامگاهشان نگهبان می‌گمارند.
لوگ اُس کے جنازے میں شریک ہو کر اُسے قبر تک لے جاتے ہیں۔ اُس کی قبر پر چوکیدار لگایا جاتا ہے۔
مردمِ بسیار جنازهٔ آنها را مشایعت می‌کنند، حتّی خاک هم آنها را با خوشی می‌پذیرد.
وادی کی مٹی کے ڈھیلے اُسے میٹھے لگتے ہیں۔ جنازے کے پیچھے پیچھے تمام دنیا، اُس کے آگے آگے اَن گنت ہجوم چلتا ہے۔
پس شما چطور می‌توانید با سخنان پوچ و بی‌معنی‌تان مرا تسلّی بدهید؟ همهٔ جوابهای شما غلط و از حقیقت دورند.
چنانچہ تم مجھے عبث باتوں سے کیوں تسلی دے رہے ہو؟ تمہارے جوابوں میں تمہاری بےوفائی ہی نظر آتی ہے۔“